وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّىٰ يَبْلُغَ أَشُدَّهُ ۖ وَأَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ ۖ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۖ وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ ۖ وَبِعَهْدِ اللَّهِ أَوْفُوا ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ
اور یتیم جب تک پختگی کی عمر کو نہ پہنچ جائے، اس وقت تک اس کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ، مگر ایسے طریقے سے جو (اس کے حق میں) بہترین ہو، اور ناپ تول انصاف کے ساتھ وپرا پورا کیا کرو، (البتہ) اللہ کسی بھی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ کی تکلیف نہیں دیتا۔ (٨٢) اور جب کوئی بات کہو تو انصاف سے کام لو، چاہے معاملہ اپنے قریبی رشتہ دار ہی کا ہو، اور اللہ کے عہد کو پورا کرو۔ (٨٣) لوگو ! یہ باتیں ہیں جن کی اللہ نے تاکید کی ہے، تاکہ تم نصیحت قبول کرو۔
* جس یتیم کی کفالت تمہاری ذمہ داری قرار پائے، تو اس کی ہر طرح خیر خواہی کرنا تمہارا فرض ہے۔ اس خیر خواہی کا تقاضا ہے کہ اگر اس کے اس مال سے یعنی وراثت میں سے اس کو حصہ ملا ہے، چاہے وہ نقدی کی صورت میں ہو یا زمین اور جائیداد کی صورت میں، تاہم ابھی وہ اس کی حفاظت کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ اس کے مال کی اس وقت تک پورے خلوص سے حفاظت کی جائے جب تک وہ بلوغت اور شعور کی عمر کو نہ پہنچ جائے۔ یہ نہ ہو کہ کفالت کے نام پر، اس کی عمر شعور سے پہلے ہی اس کے مال یا جائیداد کو ٹھکانے لگادیا جائے۔ ** ناپ تول میں کمی کرنا، لیتے وقت تو پورا ناپ یا تول کرلینا، مگر دیتے وقت ایسا نہ کرنا بلکہ ڈنڈی مار کر دوسرے کو کم دینا، یہ نہایت پست اور اخلاق سے گری ہوئی بات ہے۔ قوم شعیب میں یہی اخلاقی بیماری تھی جو ان کی تباہی کے من جملہ اسباب میں سے تھی۔ *** یہاں اس بات کے بیان سے یہ مقصد ہے کہ جن باتوں کی تاکید کررہے ہیں، یہ ایسے نہیں ہیں کہ جن پر عمل کرنا مشکل ہو۔ اگر ایسا ہوتا تو ہم ان کا حکم ہی نہ دیتے۔ اس لئے کہ طاقت سے بڑھ کر ہم کسی کو مکلف ہی نہیں ٹھہراتے۔ اس لئے اگر نجات اخروی اور دنیا میں بھی عزت و سرفرازی چاہتے ہو تو ان احکام الٰہی پر عمل کرو اور ان سے گریز مت کرو۔