سورة البقرة - آیت 86

أُولَٰئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الْحَيَاةَ الدُّنْيَا بِالْآخِرَةِ ۖ فَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَا هُمْ يُنصَرُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

یقینا یہی لوگ ہیں جنہوں نے آخرت (کی زندگی) تاراج کرکے دنیا کی زندی مول لی ہے۔ (پس ایسے لوگوں کے لیے علاج کی کوئی امید نہیں) نہ تو ان کے عذاب میں کمی ہوگی، نہ کہیں سے مدد پا سکیں گے

تفسیر مکہ - حافظ صلاح الدین یوسف حافظ

*یہ شریعت کے کسی حکم کے مان لینے اور کسی کو نظرانداز کردینے کی سزا بیان کی جارہی ہے۔ اس کی سزا دنیا میں عزت وسرفرازی کی جگہ (جو مکمل شریعت پر عمل کرنے کا نتیجہ ہے) ذلت ورسوائی اور آخرت میں ابدی نعمتوں کے بجائے سخت عذاب ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے ہاں وہ اطاعت مقبول ہے جو مکمل ہو، بعض بعض باتوں کا مان لینا، یا ان پر عمل کرلینا اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ یہ آیت ہم مسلمانوں کو بھی دعوت غوروفکر دے رہی ہے کہ کہیں مسلمانوں کی ذلت ورسوائی کی وجہ بھی مسلمانوں کا وہی کردار تو نہیں جو مذکورہ آیات میں یہودیوں کا بیان کیا گیا ہے؟