سورة الانعام - آیت 112

وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَيَاطِينَ الْإِنسِ وَالْجِنِّ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا ۚ وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوهُ ۖ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (جس طرح یہ لوگ ہمارے نبی سے دشمنی کر رہے ہیں) اسی طرح ہم نے ہر (پچھلے) نبی کے لیے کوئی نہ کوئی دشمن پیدا کیا تھا، یعنی انسانوں اور جنات میں سے شیطان قسم کے لوگ، جو دھوکا دینے کی خاطر ایک دوسرے کو بڑی چکنی چپڑی باتیں سکھاتے رہتے تھے۔ اور اگر اللہ چاہتا تو وہ ایسا نہ کرسکتے۔ (٥١) لہذا ان کو اپنی افترا پردازیوں میں پڑا رہنے دو۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- یہ وہی بات ہے جو مختلف انداز میں رسول اللہ (ﷺ) کی تسلی کے لیے فرمائی گئی ہے کہ آپ سے پہلے جتنے بھی انبیا گزرے، ان کی تکذیب کی گئی، انہیں ایذائیں دی گئیں وغیرہ وغیرہ۔ مقصد یہ ہے کہ جس طرح انہوں نے صبر اور حوصلے سے کام لیا، آپ بھی ان دشمنان حق کے مقابلے میں صبرواستقامت کا مظاہرہ فرمائیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شیطان کے پیروکار جنوں میں سے بھی ہیں اور انسانوں میں سے بھی۔ اور یہ وہ ہیں جو دونوں گروہوں میں سے سرکش، باغی، اور متکبر قسم کے ہیں۔ 2-وَحْيٌ خفیہ بات کو کہتے ہیں یعنی انسانوں اور جنوں کو گمراہ کرنے کے لیے ایک دوسرے کو چالبازیاں اور حیلے سکھاتے ہیں تاکہ لوگوں کو دھوکے اور فریب میں مبتلا کرسکیں۔ یہ بات عام مشاہدے میں بھی آئی ہے کہ شیطانی کاموں میں لوگ ایک دوسرے کے ساتھ خوب بڑھ چڑھ کر تعاون کرتے ہیں جس کی وجہ سے برائی بہت جلدی فروغ پاجاتی ہے۔ 3- یعنی اللہ تعالیٰ تو ان شیطانی ہتھکنڈوں کو ناکام بنانے پر قادر ہے لیکن وہ بالجبر ایسا نہیں کرے گا کیونکہ ایسا کرنا اس کے نظام اور اصول کے خلاف ہے جو اس نے اپنی مشیت کے تحت اختیار کیا ہے، جس کی حکمتیں وہ بہتر جانتا ہے۔