وَكَذَٰلِكَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ وَلِيَقُولُوا دَرَسْتَ وَلِنُبَيِّنَهُ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ
اسی طرح ہم آیتیں مختلف طریقوں سے بار بار واضح کرتے ہیں (تاکہ تم انہیں لوگوں تک پہنچا دو) اور بالآخر یہ لوگ تو یوں کہیں کہ : تم نے کسی سے سیکھا ہے (٤٣) اور جو لوگ علم سے کام لیتے ہیں ان کے لیے ہم حق کو آشکار کردیں۔
* یعنی ہم توحید اور اس کے دلائل کو اس طرح کھول کھول کر اور مختلف انداز سے بیان کرتے ہیں کہ مشرکین یہ کہنے لگتے ہیں کہ محمد (ﷺ) کہیں سے پڑھ کر اور سیکھ کر آیا ہے۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا: ﴿وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ هَذَا إِلا إِفْكٌ افْتَرَاهُ وَأَعَانَهُ عَلَيْهِ قَوْمٌ آخَرُونَ فَقَدْ جَاءُوا ظُلْمًا وَزُورًا، وَقَالُوا أَسَاطِيرُ الأَوَّلِينَ اكْتَتَبَهَا﴾ (الفرقان: 4۔ 5) ”کافروں نے کہا، یہ قرآن تو اس کا اپنا گھڑا ہوا ہے، جس پر دوسروں نے بھی اس کی مدد کی ہے۔ یہ لوگ ایسا دعویٰ کرکے ظلم اور جھوٹ پر اتر آئے ہیں۔ نیز انہوں نے کہا کہ یہ پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں، جس کو اس نے لکھ رکھا ہے“۔ حالانکہ بات یہ نہیں ہے، جس طرح یہ سمجھتے یا دعویٰ کرتے ہیں بلکہ مقصد اس تفصیل سے سمجھ دار لوگوں کے لئے تبیین وتشریح ہے تاکہ ان پر حجت پوری ہوجائے۔