سورة الانعام - آیت 90

أُولَٰئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ ۖ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ ۗ قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا ۖ إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرَىٰ لِلْعَالَمِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

یہ لوگ (جن کا ذکر اوپر ہوا) وہ تھے جن کو اللہ نے (مخالفین کے رویے پر صبر کرنے کی) ہدایت کی تھی، لہذا (اے پیغمبر) تم بھی انہی کے راستے پر چلو۔ (مخالفین سے) کہہ دو کہ میں تم سے اس (دعوت) پر کوئی اجرت نہیں مانگتا۔ یہ تو دنیا جہان کے سب لوگوں کے لیے ایک نصیحت ہے، اور بس۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- اس سے مراد انبیا مذکورین ہیں۔ ان کی اقتدا کا حکم مسئلہ توحید میں اور ان احکام وشرائع میں ہے جو منسوخ نہیں ہوئے۔ (فتح القدیر) کیونکہ اصول دین تمام شریعتوں میں ایک ہی رہے ہیں، گو شرائع اور مناہج میں کچھ کچھ اختلاف رہا۔ جیسا کہ آیت ﴿شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحًا﴾ (الشورى: 3) سے واضح ہے۔ 2- یعنی تبلیغ ودعوت کا، کیونکہ مجھے اس کا وہ صلہ ہی کافی ہے جو آخرت میں عنداللہ ملے گا۔ 3-جہان والے اس سے نصیحت حاصل کریں۔ پس یہ قرآن انہیں کفر وشرک کے اندھیروں سے نکال کر ہدایت کی روشنی عطا کرے گا اور ضلالت کی پگڈنڈیوں سے نکال کر ایمان کی صراط مستقیم پر گامزن کردے گا۔ بشرطیکہ کوئی اس سے نصیحت حاصل کرنا چاہے، ورنہ دیدۂ کور کو کیا نظر آئے کیا دیکھیے۔ والا معاملہ ہوگا۔