سورة الانعام - آیت 53

وَكَذَٰلِكَ فَتَنَّا بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لِّيَقُولُوا أَهَٰؤُلَاءِ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْهِم مِّن بَيْنِنَا ۗ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَعْلَمَ بِالشَّاكِرِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اسی طرح ہم نے کچھ لوگوں کو کچھ دوسروں کے ذریعے آزمائش میں ڈالا ہے (٢٠) تاکہ وہ (ان کے بارے میں) یہ کہیں کہ : کیا یہ ہیں وہ لوگ جن کو اللہ نے ہم سب کو چھوڑ کر احسان کرنے کے لیے چنا ہے؟ (٢١) کیا (جو کافر یہ بات کہہ رہے ہیں ان کے خیال میں) اللہ اپنے شکر گزار بندوں کو دوسروں سے زیادہ نہیں جانتا؟

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- ابتدا میں اکثر غریب، غلام قسم کے لوگ ہی مسلمان ہوئے تھے۔ اس لئے یہی چیز رؤسائے کفار کی آزمائش کا ذریعہ بن گئی اور وہ ان غریبوں کا مذاق بھی اڑاتے اور جن پر ان کا بس چلتا، انہیں تعذیب واذیت سے بھی دوچار کرتے اور کہتے کہ کیا یہی لوگ جن پراللہ نے احسان فرمایا ہے؟ مقصد ان کا یہ تھا کہ ایمان اور اسلام اگر واقعی اللہ کا احسان ہوتا تو یہ سب سے پہلے ہم پر ہوتا، جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا ﴿لَوْ كَانَ خَيْرًا مَا سَبَقُونَا إِلَيْهِ﴾ (الأحقاف: 11) ”اگر یہ بہتر چیز ہوتی تو اس کے قبول کرنے میں یہ ہم سے سبقت نہ کرتے“ یعنی ان ضعفا کے مقابلے میں ہم پہلے مسلمان ہوتے۔ 2- یعنی اللہ تعالیٰ ظاہری چمک دمک، ٹھاٹھ باٹھ اور رئیسانہ کروفر وغیرہ نہیں دیکھتا، وہ تو دلوں کی کیفیت کو دیکھتا ہے اور اس اعتبار سے وہ جانتا ہے کہ اس کے شکرگزار بندے اور حق شناس کون ہیں؟ پس اس نے جن کے اندر شکرگزاری کی خوبی دیکھی، انہیں ایمان کی سعادت سے سرفراز کردیا جس طرح حدیث میں آتا ہے۔ ”اللہ تعالیٰ تمہاری صورتیں اور تمہارے رنگ نہیں دیکھتا، وہ تو تمہارے دل اور تمہارے عمل دیکھتا ہے۔“ (صحيح مسلم، كتاب البر، باب تحريم ظلم المسلم وخذله واحتقاره ودمه وعرضه)