سورة الانعام - آیت 41

بَلْ إِيَّاهُ تَدْعُونَ فَيَكْشِفُ مَا تَدْعُونَ إِلَيْهِ إِن شَاءَ وَتَنسَوْنَ مَا تُشْرِكُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

بلکہ اسی کو پکارو گے، پھر جس پر یشانی کے لیے تم نے اسے پکارا ہے، اگر وہ چاہے گا تو اسے دور کردے گا، اور جن (دیوتاؤں) کو تم اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہو (اس وقت) ان کو بھول جاؤ گے۔ (١٤)

تفسیر مکہ - حافظ صلاح الدین یوسف حافظ

* ”أَرَأيْتَكُمْ“ میں کاف اور میم خطاب کے لئے ہے اس کے معنی ”أَخْبِرُونِي“ (مجھے بتلاؤ یا خبر دو) کے ہیں۔ اس مضمون کو بھی قرآن کریم میں کئی جگہ بیان کیا گیا ہے۔ (دیکھیے سورۂ بقرہ آیت 165 کا حاشیہ) اس کا مطلب یہ ہوا کہ توحید انسانی فطرت کی آواز ہے۔ انسانی ماحول، یا آبا واجداد کی تقلید نا سدید میں مشرکانہ عقائد واعمال میں مبتلا رہتا ہے اور غیر اللہ کو اپنا حاجت روا ومشکل کشا سمجھتا رہتا ہے، نذر ونیاز بھی انہی کے نام کی نکالتا ہے، لیکن جب کسی ابتلا سے دوچار ہوتا ہے تو پھر یہ سب بھول جاتا ہے اور فطرت ان سب پر غالب آجاتی ہے اور بےاختیار انسان پھر اسی ذات کو پکارتا ہے جس کو پکارنا چاہیے۔ کاش! لوگ اسی فطرت پر قائم رہیں کہ نجات اخروی تو مکمل طور پر اسی صدائے فطرت یعنی توحید کے اختیار کرنے میں ہی ہے۔