أَفَتَطْمَعُونَ أَن يُؤْمِنُوا لَكُمْ وَقَدْ كَانَ فَرِيقٌ مِّنْهُمْ يَسْمَعُونَ كَلَامَ اللَّهِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُ مِن بَعْدِ مَا عَقَلُوهُ وَهُمْ يَعْلَمُونَ
(مسلمانو !) کیا تم توقع رکھتے ہو کہ یہ لوگ (کلام حق پر غور کریں گے اور اس کی سچائی پرکھ کر) تمہاری بات مان لیں گے حالانکہ ان میں ایک گروہ ایسا تھا جو اللہ کا کلام سنتا تھا اور اس کا مطلب سمجھتا تھا لیکن پھر بھی جان بوجھ کر اس میں تحریف کردیتا تھا (یعنی اس کا مطلب بدل دیتا تھا)
*اہل ایمان سے خطاب کرکے یہودیوں کی بابت کہا جارہا ہے کہ کیا تمہیں ان کے ایمان لانے کی امید ہے، درآں حالیکہ ان کے پچھلے لوگوں میں ایک فریق ایسا بھی تھا جو کلام الٰہی میں جانتے بوجھتے تحریف (لفظی ومعنوی) کرتا تھا۔ یہ استفہام انکاری ہے، یعنی ایسے لوگوں کے ایمان لانے کی قطعاً امید نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو لوگ دنیوی مفادات، یا حزبی تعصبات کی وجہ سے کلام الٰہی میں تحریف تک کرنے سے گریز نہیں کرتے، وہ گمراہی کی ایسی دلدل میں پھنس جاتے ہیں کہ اس سے نکل نہیں پاتے۔ امت محمدیہ کے بہت سے علما ومشائخ بھی بدقسمتی سے قرآن وحدیث میں تحریف کے مرتکب ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس جرم سے محفوظ رکھے۔ (دیکھیے سورۂ نساء آیت 77 کا حاشیہ)