سورة الانعام - آیت 28

بَلْ بَدَا لَهُم مَّا كَانُوا يُخْفُونَ مِن قَبْلُ ۖ وَلَوْ رُدُّوا لَعَادُوا لِمَا نُهُوا عَنْهُ وَإِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

حالانکہ (ان کی یہ آرزو بھی سچی نہ ہوگی) بلکہ دراصل وہ چیز (یعنی آخرت) ان کے سامنے کھل کر ااچکی ہوگی جسے وہ پہلے چھپایا کرتے تھے (اس لیے مجبورا یہ دعوی کریں گے) ورنہ اگر ان کو واقعی واپس بھیجا جائے تو یہ دوبارہ وہی کچھ کریں گے جس سے انہیں روکا گیا ہے، اور یقین جانو یہ پکے جھوٹے ہیں۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- بَلْ جو إِضْرَاب ( یعنی پہلی بات سے گریز کرنے) کے لئے آتا ہے۔ اس کے کئی مفہوم بیان کئے گئے ہیں۔ ان کے لئے وہ کفر اور عناد وتکذیب ظاہر ہوجائے گی، جو اس سے قبل وہ دنیا یا آخرت میں چھپاتے تھے۔ یعنی جس کا انکارکرتے تھے، جیسے وہاں بھی ابتداءً کہیں گے مَا كُنَّا مُشْرِكِينَ (ہم تو مشرک ہی نہ تھے) یا رسول اللہ (ﷺ) اور قرآن کریم کی صداقت کا علم جو ان کے دلوں میں تھا، لیکن اپنے پیروکاروں سے چھپاتے تھے۔ وہاں ظاہر ہوجائے گا۔ یا منافقین کا وہ نفاق وہاں ظاہر ہوجائے گا جسے وہ دنیا میں اہل ایمان سے چھپاتے تھے۔ (تفسیر ابن کثیر) 2- یعنی دوبارہ دنیا میں آنے کی خواہش ایمان لانے کے لئے نہیں، صرف عذاب سے بچنے کے لئے ہے، جو ان پر قیامت کے دن ظاہر ہوجائے گا اور جس کا وہ معائنہ کرلیں گے ورنہ اگر یہ دنیا میں دوبارہ بھیج دیئے جائیں تب بھی یہ وہی کچھ کریں گے جو پہلے کرتے رہے ہیں۔