سورة المآئدہ - آیت 114

قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا أَنزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيدًا لِّأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآيَةً مِّنكَ ۖ وَارْزُقْنَا وَأَنتَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(چنانچہ) عیسیٰ ابن مریم نے درخواست کی کہ : یا اللہ ! ہم پر آسمان سے ایک خوان اتار دیجیے جو ہمارے لیے اور ہمارے اگلوں اور پچھلوں کے لیے ایک خوشی کا موقع بن جائے، اور آپ کی طرف سے ایک نشانی ہو۔ اور ہمیں یہ نعمت عطا فرما ہی دیجیے، اور آپ سب سے بہتر عطا فرمانے والے ہیں۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- اسلامی شریعتوں میں عید کا مطلب یہ نہیں رہا ہے کہ قومی تہوار کا ایک دن ہو جس میں تمام اخلاقی قیود اور شریعت کے ضابطوں کو پامال کرتے ہوئے بےہنگم طریقے سے طرب ومسرت کا اظہار کیا جائے، چراغاں کیا جائے اور جشن منایا جائے، جیسا کہ آج کل اس کا یہی مفہوم سمجھ لیا گیا ہے اور اسی کے مطابق تہوار منائے جاتے ہیں۔ بلکہ آسمانی شریعتوں میں اس کی حیثیت ایک ملی تقریب کی ہوتی ہے، جس کا اہم مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس روز پوری ملت اجتماعی طور پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے اور اس کی تکبیر وتحمید کے زمزمے بلند کرے۔ یہاں بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اس دن کو عید بنانے کی جس خواہش کا اظہار کیا ہے اس سے ان کا مطلب یہی ہے کہ ہم تعریف وتمجید اور تکبیر وتحمید کریں۔ بعض اہل بدعت اس عید مائدہ سے عید میلاد کا جواز ثابت کرتے ہیں۔ حالانکہ اول تو یہ ہماری شریعت سے پہلے کی شریعت کا واقعہ ہے، جسے اگر اسلام برقرار رکھنا چاہتا تو وضاحت کردی جاتی۔ دوسرے یہ پیغمبر کی زبان سے عید بنانے کی خواہش کا اظہار ہوا تھا اور پیغمبر بھی اللہ کے حکم سے شرعی احکام بیان کرنے کا مجاز ہوتا ہے۔ تیسرے عید کا مفہوم ومطلب بھی وہ ہوتا ہے جو مذکورہ بالا سطروں میں بیان کیا گیا ہے۔ جب کہ عید میلاد میں ان میں سے کوئی بات بھی نہیں ہے۔ لہذا عید میلاد کے بدعت ہونے میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے۔ اسلام میں صرف دو ہی عیدیں ہیں جو اسلام نے مقرر کی ہیں، عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ۔ ان کے علاوہ کوئی تیسری عید نہیں ہے۔