سورة المآئدہ - آیت 67

يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ ۖ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ ۚ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اے رسول ! جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے اس کی تبلیغ کرو۔ اور اگر ایسا نہیں کرو گے تو ( اس کا مطلب یہ ہوگا کہ) تم نے اللہ کا پیغام نہیں پہنچایا۔ اور اللہ تمہیں لوگوں ( کی سازشوں) سے بچائے گا۔ یقین رکھو کہ اللہ کافر لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔

تفسیر مکہ - حافظ صلاح الدین یوسف حافظ

* اس حکم کا مفاد یہ ہے کہ جو کچھ آپ (ﷺ) پر نازل کیا گیا ہے، بلاکم وکاست اور بلاخوف لومۃ لائم آپ لوگوں تک پہنچا دیں، چنانچہ آپ (ﷺ) نے ایسا ہی کیا۔ حضرت عائشہ (رضی الله عنها) فرماتی ہیں کہ ”جو شخص یہ گمان کرے کہ نبی (ﷺ) نے کچھ چھپا لیا، اس نے یقیناً جھوٹ کہا۔“ (صحیح بخاری۔ 4855) اور حضرت علی (رضی الله عنہ) سے بھی جب سوال کیا گیا کہ تمہارے پاس قرآن کے علاوہ وحی کے ذریعے سے نازل شدہ کوئی بات ہے؟ تو انہوں نے قسم کھا کر نفی فرمائی اور فرمایا ”الا فَهْمًا يُعْطِيهِ اللهُ رَجُلا“ (البتہ قرآن کا فہم ہے جسے اللہ تعالیٰ کسی کو بھی عطا فرما دے) (صحیح بخاری -نمبر3-69) اورحجۃ الوداع کے موقع پر آپ (ﷺ) نے صحابہ کے ایک لاکھ یا ایک لاکھ چالیس ہزار کے جم غفیر میں فرمایا ”تم میرے بارے میں کیا کہو گے ؟ انہوں نے کہا: نَشْهَدُ أَنَّكَ قَدْ بَلَّغْتَ، وَأَدَّيْتَ، وَنَصَحْتَ ( ہم گواہی دیں گے کہ آپ نے اللہ کا پیغام دیا اور ادا کردیا اور خیرخواہی فرما دی)، آپ (ﷺ) نے آسمان کی طرف انگلی کا اشارہ کرتے ہوئے فرمایا [اللَّهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ ] ( تین مرتبہ) یا [ اللَّهُمَّ فَاشْهَدْ ] ( تین مرتبہ) (صحيح مسلم، كتاب الحج، باب حجة النبي (ﷺ)) یعنی اے اللہ! میں نے تیرا پیغام پہنچا دیا، تو گواہ رہ، تو گواہ رہ، تو گواہ رہ۔ ** یہ حفاظت اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طریقہ پر بھی فرمائی اور دنیاوی اسباب کے تحت بھی دنیاوی اسباب کے تحت اس آیت کے نزول سے بہت قبل اللہ تعالیٰ نے پہلے آپ کے چچا ابوطالب کے دل میں آپ کی طبعی محبت ڈال دی، اور وہ آپ کی حفاظت کرتے رہے، ان کا کفر پر قائم رہنا بھی شاید انہی اسباب کا ایک حصہ معلوم ہوتا ہے۔ کیوں کہ اگر وہ مسلمان ہوجاتے تو شاید سرداران قریش کے دل میں ان کی وہ ہیبت وعظمت نہ رہتی جو ان کے ہم مذہب ہونے کی صورت میں آخر وقت تک رہی۔ پھر ان کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ نے بعض سرداران قریش کے ذریعہ پھر انصار مدینہ کے ذریعے سے آپ کا تحفظ فرمایا۔ پھر جب یہ آیت نازل ہوگئی تو آپ نے تحفظ کے ظاہری اسباب (پہرے وغیرہ) اٹھوا دیئے۔ اس کے بعد بارہا سنگین خطرے پیش آئے لیکن اللہ نے حفاظت فرمائی۔ چنانچہ وحی کے ذریعے سے اللہ نے وقتاً فوقتاً یہودیوں کے مکر وکید سے مطلع فرماکر خاص خطرے کے مواقع پر بچایا اور گھمسان کی جنگوں میں کفار کے انتہائی پرخطر حملوں سے بھی آپ کو محفوظ رکھا۔ ذَلِكَ مِنْ قُدْرَةِ اللهِ وَقَدَّرَهُ بِمَا شَاءَ، وَلا يَرُدُّ قَدَرَ اللهِ وَقَضَاءَهُ أَحَدٌ وَلا يَغْلِبُهُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْعَلِيمُ.