سورة المآئدہ - آیت 64

وَقَالَتِ الْيَهُودُ يَدُ اللَّهِ مَغْلُولَةٌ ۚ غُلَّتْ أَيْدِيهِمْ وَلُعِنُوا بِمَا قَالُوا ۘ بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ يُنفِقُ كَيْفَ يَشَاءُ ۚ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيرًا مِّنْهُم مَّا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ طُغْيَانًا وَكُفْرًا ۚ وَأَلْقَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ ۚ كُلَّمَا أَوْقَدُوا نَارًا لِّلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ ۚ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا ۚ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور یہودی کہتے ہیں کہ : اللہ کے ہاتھ بندے ہوئے ہیں (٤٦) ہاتھ تو خود ان کے بندھے ہوئے ہیں اور جو بات انہوں نے کہی ہے اس کی وجہ سے ان پر لعنت الگ پڑی ہے، ورنہ اللہ کے دونوں ہاتھ پوری طرح کشادہ ہیں وہ جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے۔ اور (اے پیغمبر) جو وحی تم پر نازل کی گئی ہے وہ ان میں سے بہت سوں کی سرکشی اور کفر میں مزید اضافہ کر کے رہے گی، اور ہم نے ان کے درمیان قیامت کے دن تک کے لیے عداوت اور بغض پیدا کردیا ہے۔ جب کبھی یہ جنگ کی آگ بھڑکاتے ہیں اللہ اس کو بجھا دیتا ہے (٤٧) اور یہ زمین میں فساد مچاتے پھرتے ہیں، جبکہ اللہ فساد مچانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

تفسیر مکہ - حافظ صلاح الدین یوسف حافظ

* یہ وہی بات ہے جو سورہ آل عمران کی آیت 181 میں کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب اپنی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب دی اور اسے اللہ کو قرض حسن دینے سے تعبیر کیا تو ان یہودیوں نے کہا کہ ”اللہ تعالیٰ تو فقیر ہے“ لوگوں سے قرض مانگ رہا ہے اور وہ تعبیر کے اس حسن کو نہ سمجھ سکے جو اس میں پنہاں تھا۔ یعنی سب کچھ اللہ کا دیا ہوا ہے۔ اور اللہ کے دیئے ہوئے مال میں سے کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کردینا، کوئی قرض نہیں ہے۔ لیکن یہ اس کی کمال مہربانی ہے کہ وہ اس پر بھی خوب اجر عطا فرماتا ہے۔ حتیٰ کہ ایک ایک دانے کو سات سات سو دانے تک بڑھا دیتا ہے۔ اور اسے قرض حسن سے اسی لئے تعبیر فرمایا کہ جتنا تم خرچ کرو گے، اللہ تعالیٰ اس سے کئی گنا تمہیں واپس لوٹائے گا۔ ”مَغْلُولَةٌ“ کے معنی ”بَخِيلَةٌ“ (بخل والے) کئے گئے ہیں۔ یعنی یہود کا مقصد یہ نہیں تھا کہ اللہ کے ہاتھ واقعتاً بندھے ہوئے ہیں، بلکہ ان کا مقصد یہ تھا کہ اس نے اپنے ہاتھ خرچ کرنے سے روکے ہوئے ہیں۔ (ابن کثیر) اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”ہاتھ تو انہی کے بندھے ہوئے ہیں“ یعنی بخیلی انہی کا شیوہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے تو دونوں ہاتھ کھلے ہوتے ہیں، وہ جس طرح چاہتا ہے۔ خرچ کرتا ہے۔ وہ وَاسِعُ الْفَضْلِ اورجَزِيلُ الْعَطَاءِ ہے، تمام خزانے اسی کے پاس ہیں۔ نیز اس نے اپنی مخلوقات کے لئے تمام حاجات وضروریات کا انتظام کیا ہوا ہے، ہمیں رات یا دن کو، سفرمیں اور حضر میں اور دیگر تمام احوال میں جن جن چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے یا پڑ سکتی ہے، سب وہی مہیا کرتا ہے۔ ﴿وَآتَاكُمْ مِنْ كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوهَا إِنَّ الإِنْسَانَ لَظَلُومٌ كَفَّارٌ﴾ ( سورۂ ابراہیم: 34) ”تم نے جو کچھ اس سے مانگا، وہ اس نے تمہیں دیا، اللہ کی نعمتیں اتنی ہیں کہ تم گن نہیں سکتے، انسان ہی نادان اور نہایت ناشکرا ہے“۔ حدیث میں بھی ہے نبی (ﷺ)نے فرمایا: ”اللہ کا دایاں ہاتھ بھرا ہوا ہے، رات دن خرچ کرتا ہے لیکن کوئی کمی نہیں آتی، ذرا دیکھو تو، جب سے آسمان و زمین اس نے پیدا کئے ہیں وہ خرچ کر رہا ہے لیکن اس کے ہاتھ کے خزانے میں کمی نہیں آئی...“ (البخاری، كتاب التوحيد، باب ﴿ وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ ﴾- مسلم، كتاب الزكاة، باب الحث على النفقة) ** یعنی یہ جب بھی آپ کے خلاف کوئی سازش کرتے یا لڑائی کے اسباب مہیا کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کو باطل کردیتا اور ان کی سازش کو انہی پر الٹا دیتا ہے اور ان کو ”چاہ کن را چاہ درپیش“ کی سی صورتحال سے دوچار کر دیتا ہے۔ *** ان کی عادت ثانیہ ہے کہ ہمیشہ زمین میں فساد پھیلانے کی مذموم کوششیں کرتے ہیں دراں حالیکہ اللہ تعالیٰ مفسدین کو پسند نہیں فرماتا۔