يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَن يَرْتَدَّ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَائِمٍ ۚ ذَٰلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ
اے ایمان والو ! اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھرجائے گا تو اللہ ایسے لوگ پیدا کردے گا جن سے وہ محبت کرتا ہوگا، اور وہ اس سے محبت کرتے ہوں گے جو مومنوں کے لیے نرم اور کافروں کے لیے سخت ہوں گے۔ اللہ کے راستے میں جہاد کریں گے، اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے، یہ اللہ کا فضل ہے جو وہ جس کو چاہتا ہے عطا فرماتا ہے، اور اللہ بڑی وسعت والا، بڑے علم والا ہے۔
* اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کے مطابق فرمایا، جس کا وقوع نبی کریم (ﷺ) کی وفات کے فوراً بعد ہوا۔ اس فتنۂ ارتداد کے خاتمے کا شرف حضرت ابوبکر صدیق (رضی الله عنہ) اور ان کے رفقا کو حاصل ہوا۔ ** مرتدین کے مقابلے میں جس قوم کو اللہ تعالیٰ کھڑا کرے گا ان کی 4 نمایاں صفات بیان کی جارہی ہیں۔ 1۔ اللہ سے محبت کرنا اور اس کا محبوب ہونا۔ 2۔ اہل ایمان کے لئے نرم اور کفار پر سخت ہونا۔ 3۔ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔ 4۔ اور اللہ کے بارے میں کسی کی ملامت سے نہ ڈرنا۔ صحابہ کرام (رضی الله عنہم) ان صفات اور خوبیوں کا مظہر اتم تھے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا و آخرت کی سعادتوں سے مشرف فرمایا اور دنیا میں ہی اپنی رضامندی کی سند سے نواز دیا۔ *** یہ ان اہل ایمان کی چوتھی صفت ہے۔ یعنی اللہ کی اطاعت وفرماں برداری میں انہیں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہ ہوگی۔ یہ بھی بڑی اہم صفت ہے۔ معاشرے میں جن برائیوں کا چلن عام ہو جائے، ان کے خلاف نیکی پر استقامت اور اللہ کے حکموں کی اطاعت اس صفت کے بغیر ممکن نہیں۔ ورنہ کتنے ہی لوگ ہیں جو برائی، معصیت الٰہی اور معاشرتی خرابیوں سے اپنا دامن بچانا چاہتے ہیں لیکن ملامت گروں کا مقابلہ کرنے کی ہمت اپنے اندر نہیں پاتے۔ نتیجتاً وہ ان برائیوں کی دلدل سے نکل نہیں پاتے اور حق وباطل سے بچنے کی توفیق سے محروم ہی رہتے ہیں۔ اسی لئے آگے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جن کو مذکورہ صفات حاصل ہوجائیں تو یہ اللہ کا ان پر خاص فضل ہے۔