يَا قَوْمِ ادْخُلُوا الْأَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِي كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ وَلَا تَرْتَدُّوا عَلَىٰ أَدْبَارِكُمْ فَتَنقَلِبُوا خَاسِرِينَ
اے میری قوم ! اس مقدس سرزمین میں داخل ہوجاؤ جو اللہ نے تمہارے واسطے لکھ دی ہے، (١٩) اور اپنی پشت کے بل پیچھے نہ لوٹو، ورنہ پلٹ کر نامراد جاؤ گے۔
1- بنو اسرائیل کے مورث اعلیٰ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا مسکن بیت المقدس تھا۔ لیکن حضرت یوسف (علیہ السلام) کے امارت مصر کے زمانے میں یہ لوگ مصر جا کر آباد ہوگئے تھے اور پھر تب سے اس وقت تک مصر ہی میں رہے، جب تک کہ موسیٰ (علیہ السلام) انہیں راتوں رات (فرعون سے چھپ کر) مصر سے نکال نہیں لے گئے۔ اس وقت بیت المقدس پر عمالقہ کی حکمرانی تھی جو ایک بہادر قوم تھی۔ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے پھر بیت المقدس جا کر آباد ہونے کا عزم کیا تو اس کے لئے وہاں قابض عمالقہ سے جہاد ضروری تھا۔ چنانچہ حضرت موسی (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اس ارض مقدسہ میں داخل ہونے کا حکم دیا اور نصرت الٰہی کی بشارت بھی سنائی۔ لیکن اس کے باوجود بنواسرائیل عمالقہ سے لڑنے پر آمادہ نہیں ہوئے۔ (ابن کثیر ) 2- اس سے مراد وہی فتح و نصرت ہے جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے جہاد کی صورت میں ان سے کر رکھا تھا۔ 3- یعنی جہاد سے اعراض مت کرو۔