وَلَقَدْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَبَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنَيْ عَشَرَ نَقِيبًا ۖ وَقَالَ اللَّهُ إِنِّي مَعَكُمْ ۖ لَئِنْ أَقَمْتُمُ الصَّلَاةَ وَآتَيْتُمُ الزَّكَاةَ وَآمَنتُم بِرُسُلِي وَعَزَّرْتُمُوهُمْ وَأَقْرَضْتُمُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا لَّأُكَفِّرَنَّ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَلَأُدْخِلَنَّكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۚ فَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ مِنكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ
اور یقینا اللہ نے بنی اسرائیل سے عہد لیا تھا، اور ہم نے ان میں سے بارہ نگراں مقرر کیے تھے (١٣) اور اللہ نے کہا تھا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں، اگر تم نے نماز قائم کی، زکوۃ ادا کی، میرے پیغمبروں پر ایمان لائے، عزت سے ان کا ساتھ دیا اور اللہ کو اچھا قرض دیا (١٤) تو یقین جانو کہ میں تمہاری برائیوں کا کفارہ کردوں گا، اور تمہیں ان باغات میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، پھر اس کے بعد بھی تم میں سے جو شخص کفر اختیار کرے گا تو درحقیقت وہ سیدھی راہ سے بھٹک جائے گا
- جب اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو وہ عہد اور میثاق پورا کرنے کی تاکید کی جو اس نے حضرت محمد (ﷺ) کے ذریعے سے لیا اور انہیں قیام حق اور شہادت عدل کا حکم دیا اور انہیں وہ انعامات یاد کرائے جو ان پر ظاہراً وباطنا ہوئے اور بالخصوص یہ بات کہ انہیں حق و صواب کے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائی تو اب اس مقام پر اس عہد کا ذکر فرمایا جا رہا ہے جو بنی اسرائیل سے لیا گیا اور جس میں وہ ناکام رہے۔ یہ گویا بالواسطہ مسلمانوں کو تنبیہ ہے کہ تم بھی کہیں بنو اسرائیل کی طرح عہد ومیثاق کو پامال کرنا شروع نہ کر دینا۔ ** اس وقت کا واقعہ ہے جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جبابرہ سے قتال کے لئے تیار ہوئے تو انہوں نے اپنی قوم کے بارہ قبیلوں پر بارہ نقیب مقرر فرما دیئے تاکہ وہ انہیں جنگ کے لئے تیار بھی کریں، ان کی قیادت و رہنمائی بھی کریں اور دیگر معاملات کا انتظام بھی کریں۔