سورة المآئدہ - آیت 4

يَسْأَلُونَكَ مَاذَا أُحِلَّ لَهُمْ ۖ قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ ۙ وَمَا عَلَّمْتُم مِّنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِينَ تُعَلِّمُونَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللَّهُ ۖ فَكُلُوا مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ ان کے لیے کون سی چیزیں حلال ہیں؟ کہہ دو کہ : تمہارے لیے تمام پاکیزہ چیزیں حلال کی گئی ہیں۔ اور جن شکاری جانوروں کو تم نے اللہ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق سکھا سکھا کر (شکار کے لیے) سدھا لیا ہو، وہ جس جانور کو (شکار کر کے) تمہارے لیے روک رکھیں، اس میں سے تم کھا سکتے ہو، اور اس پر اللہ کا نام لیا کرو، (٨) اور اللہ سے ڈرتے رہو، اللہ جلد حساب لینے والا ہے

تفسیر مکہ - حافظ صلاح الدین یوسف حافظ

* اس سے وہ تمام چیزیں مراد ہیں جو حلال ہیں۔ ہر حلال طیب ہے اور حرام خبیث۔ ** ”جَوَارِحُ“، ”جَارِحٌ“ کی جمع ہے جو کاسب (کمانے والا) کے معنی میں ہے۔ مراد شکاری کتا، باز، چیتا، شکرا اور دیگر شکاری پرندے اور درندے ہیں۔ ”مُكَلِّبِينَ“ کا مطلب ہے شکار پر چھوڑنے سے پہلے ان کو شکار کے لئے سدھایا گیا ہو۔ سدھانے کا مطلب ہے جب اسے شکار پر چھوڑا جائے۔ تو دوڑتا ہوا جائے، جب روک دیا جائے تو رک جائے اور بلایا جائے تو واپس آجائے۔ *** ایسے سدھائے ہوئے جانوروں کا شکار کیا ہوا جانور دو شرطوں کے ساتھ حلال ہے۔ ایک یہ کہ اسے شکار کے لئے چھوڑتے وقت بسم اللہ پڑھ لی گئی ہو۔ دوسری یہ کہ شکاری جانور شکار کرکے اپنے مالک کے لئے رکھ چھوڑے اور اسی کا انتظار کرے، خود نہ کھائے۔ حتیٰ کہ اگر اس نے اسے مار بھی ڈالا ہو، تب بھی وہ مقتول شکار شدہ جانور حلال ہوگا بشرطیکہ اس کے شکار میں سدھائے اور چھوڑے ہوئے جانور کے علاوہ کسی اور جانور کی شرکت نہ ہو۔ (صحيح بخاری، كتاب الذبائح والصيد ،مسلم، كتاب الصيد