يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ وَلَا تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ إِلَّا الْحَقَّ ۚ إِنَّمَا الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَسُولُ اللَّهِ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَىٰ مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِّنْهُ ۖ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ ۖ وَلَا تَقُولُوا ثَلَاثَةٌ ۚ انتَهُوا خَيْرًا لَّكُمْ ۚ إِنَّمَا اللَّهُ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۖ سُبْحَانَهُ أَن يَكُونَ لَهُ وَلَدٌ ۘ لَّهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ وَكِيلًا
اے اہل کتاب ! اپنے دین میں غلو نہ کرو (یعنی حقیق و اعتدال سے گزر نہ جاؤ) اور اللہ کے بارے میں حق کے سوا اور کچھ نہ کہو مریم کا بیٹا عیسیٰ مسیح اس کے سوا کچھ نہیں کہ اللہ کا رسول ہے اور اس کے کلمہ (بشارت) کا ظہور ہے جو مریم پر القا کیا گیا تھا، نیز ایک روح ہے جو اس کی جانب سے بھیجی گئی پس چاہیے کہ اللہ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ، اور یہ بات نہ کہو کہ خدا تین ہیں۔ دیکھو، ایسی بات کہنے سے باز آجاؤ کہ تمہارے لیے بہتری ہو، حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ اللہ ہی اکیلا معبود ہے (اس کے سوا کوئی نہیں) وہ اس سے پاک ہے کہ اس کے لیے کوئی بیٹا ہو۔ آسمانوں میں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اسی کے ہے ہے (وہ بھلا اپنے کاموں کے لیے اس بات کا کیوں محتاج ہونے لگا کہ کسی کو بیٹا بنا کر دنیا میں بھیجے؟ کارسازی کے لیے خدا کا کارساز ہونا بس ہے
1- ”غُلُوٌّ“ کا مطلب ہے کسی چیز کو اس کی حد سے بڑھا دینا۔ جیسے عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ کے بارے میں کیا کہ انہیں رسالت وبندگی کے مقام سے اٹھا کر الوہیت کے مقام پر فائز کردیا اور ان کی اللہ کی طرح عبادت کرنے لگے۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے پیروکاروں کو بھی غلو کا مظاہرہ کرتے ہوئے، معصوم بنا ڈالا اور ان کو حرام و حلال کے اختیار سے نواز دیا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ﴾ (التوبہ: 31) ”انہوں نے اپنے علما اور درویشوں کو اللہ کے سوا رب بنا لیا“۔ یہ رب بنانا حدیث کے مطابق، ان کے حلال کئے کو حلال اور حرام کئے کو حرام سمجھنا تھا۔ دراں حالیکہ یہ اختیار صرف اللہ کو حاصل ہے لیکن اہل کتاب نے یہ حق بھی اپنے علماء وغیرہ کو دے دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اہل کتاب کو دین میں اسی غلو سے منع فرمایا ہے۔ نبی (ﷺ) نے بھی عیسائیوں کے اس غلو کے پیش نظر اپنے بارے میں اپنی امت کو متنبہ فرمایا [ لا تُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَى عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ؛ فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُهُ، فَقُولُوا: عَبْدُ اللهِ وَرَسُولُهُ ] (صحیح بخاری۔ کتاب الانبیاء مسند احمد جلد ا صفحہ 23، نیز دیکھیے مسند احمد جلد ا صفحہ 153) ”تم مجھے اس طرح حد سے نہ بڑھانا جس طرح عیسائیوں نے عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کو بڑھایا، میں تو صرف اللہ کا بندہ ہوں، پس تم مجھے اس کا بندہ اور رسول ہی کہنا“۔ لیکن افسوس امت محمدیہ اس کے باوجود بھی اس غلو سے محفوظ نہ رہ سکی جس میں عیسائی مبتلا ہوئے اور امت محمدیہ نے بھی اپنے پیغمبر کو بلکہ نیک بندوں تک کو خدائی صفات سے متصف ٹھہرا دیا جو دراصل عیسائیوں کا وطیرہ تھا۔ اسی طرح علماء وفقہاء کو بھی دین کا شارح اور مفسر ماننے کے بجائے ان کو شارع (شریعت سازی کا اختیار رکھنے والے) بنا دیا ہے۔فَإِنَّا للهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ۔ سچ فرمایا نبی (ﷺ) نے [ لَتَتَّبَعُنَّ سَنَنَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ ] ”جس طرح ایک جوتا دوسرے جوتے کے برابر ہوتا ہے، بالکل اسی طرح تم پچھلی امتوں کی پیروی کرو گے“۔ یعنی ان کے قدم بہ قدم چلو گے۔ 2- ”كَلِمَةُ اللهِ“ کا مطلب یہ ہے کہ لفظ ”كُنْ“ سے باپ کے بغیر ان کی تخلیق ہوئی اور یہ لفظ حضرت جبریل (علیہ السلام) کے ذریعے سے حضرت مریم علیہا السلام تک پہنچایا گیا۔ روح اللہ کا مطلب وہ نفخة ( پھونک) ہے جو حضرت جبریل (علیہ السلام) نے اللہ کے حکم سے حضرت مریم علیہا السلام کے گریبان میں پھونکا، جسے اللہ تعالیٰ نے باپ کے نطفہ کے قائم مقام کردیا۔ یوں عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کا کلمہ بھی ہیں جو فرشتے نے حضرت مریم علیہا السلام کی طرف ڈالا اور اس کی وہ روح ہیں، جسے لے کر جبریل (علیہ السلام) مریم علیہا السلام کی طرف بھیجے گئے۔ (تفسیر ابن کثیر )۔ 3- عیسائیوں کے کئی فرقے ہیں۔ بعض حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ، بعض اللہ کا شریک اوربعض اللہ کا بیٹا مانتے ہیں۔ پھر جو اللہ مانتے ہیں وہ أَقَانِيمُ ثَلاثَةٌ ( تین خداؤں) کے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ثالث ثلاثہ (تین سے ایک) ہونے کے قائل ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ تین خدا کہنے سے باز آجاؤ، اللہ تعالیٰ ایک ہی ہے۔