وَإِذْ قُلْنَا ادْخُلُوا هَٰذِهِ الْقَرْيَةَ فَكُلُوا مِنْهَا حَيْثُ شِئْتُمْ رَغَدًا وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَقُولُوا حِطَّةٌ نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطَايَاكُمْ ۚ وَسَنَزِيدُ الْمُحْسِنِينَ
اور پھر (کیا اس وقت کی یاد بھی تمہارے اندر عبرت پیدا نہیں کرسکتی) جب (ایک شہر کی آبادی تمہارے سامنے تھی اور) ہم نے حکم دیا تھا کہ اس آبادی میں (فتح مندانہ) داخل ہوجاؤ اور پھر کھاؤ پیو، آرام چین کی زندگی بسر کرو، لیکن جب شہر کے دروازے میں قدم رکھو، تو تمہارے سر اللہ کے حضور جھکے ہوئے ہوں اور تمہاری زبانوں پر توبہ واستغفار کا کلمہ جاری ہو کہ حطۃ! حطۃ! (خدایا ہمیں گناہوں کی آلودگی سے پاک کردے ! اگر تم نے ایسا کیا، تو) اللہ تمہاری خطائیں معاف کردے گا، اور (اس کا قانون یہی ہے کہ) نیک کردار انسانوں کے اعمال میں برکت دیتا ہے اور ان کے اجر میں فراوانی ہوتی رہتی ہے
1-اس بستی سےمراد جمہور مفسرین کے نزدیک بیت المقدس ہے۔ 2- سجدہ سے بعض حضرات نے یہ مطلب لیا ہے کہ جھکتے ہوئے داخل ہو اور بعض نے سجدۂ شکر ہی مراد لیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ بارگاہ الٰہی میں عجز وانکسار اور اعتراف شکر کرتے ہوئے داخل ہو۔ 3- حِطَّةٌ اس کے معنی ہیں ”ہمارے گناہ معاف فرمادے۔“