وَإِن مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا
اور (دیکھو) اہل کتاب میں (یعنی یہودیوں میں سے جنہوں نے میسح سے انکار کیا) کوئی نہ ہوگا جو اپنی موت سے پہلے (حقیقت حال پر مطلع نہ ہوجائے اور) اس پر (یعنی مسیح کی صداقت پر) یقین نہ لے آئے۔ ایسا ہونا ضروری ہے (کیونکہ مرنے کے وقت غفلت و شرارت کے تمام پردے ہٹ جاتے ہیں اور حقیقت نمودار ہوتی ہے) اور قیامت کے دن وہ (اللہ کے حضور) ان پر شہادت دینے والا ہوگا
1- ﴿قَبْلَ مَوْتِهِ﴾میں ”ہ“ کی ضمیر کا مرجع بعض مفسرین کے نزدیک اہل کتاب (نصاریٰ) ہیں اور مطلب یہ کہ ہر عیسائی موت کے وقت حضرت عیسییٰ پر ایمان لے آتا ہے۔ گو موت کے وقت کا ایمان نافع نہیں۔ لیکن سلف اور اکثر مفسرین کے نزدیک اس کا مرجع حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں اور مطلب یہ ہے کہ جب ان کا دوبارہ دنیا میں نزول ہوگا اور وہ دجال کو قتل کرکے اسلام کا بول بالا کریں گے تو اس وقت جتنے یہودی اور عیسائی ہوں گے ان کو بھی قتل کر ڈالیں گے اور روئے زمین پر مسلمان کے سوا کوئی اور باقی نہ بچے گا اس طرح اس دنیا میں جتنے بھی اہل کتاب حضرت عیسیٰ پر ایمان لانے والے ہیں وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی موت سے پہلے پہلے ان پر ایمان لاکر اس دنیا سے گزر چکیں گے۔ خواہ ان کا ایمان کسی بھی ڈھنگ کا ہو۔ صحیح احادیث سے بھی یہی ثابت ہے۔ چنانچہ نبی (ﷺ) نے فرمایا: ”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! ضرور ایک وقت آئے گا کہ تم میں ابن مریم حاکم و عادل بن کر نازل ہوں گے، وہ صلیب کو توڑ دیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے، جزیہ اٹھا دیں گے اور مال کی اتنی بہتات ہو جائے گی کہ کوئی اسے قبول کرنے والا نہیں ہوگا۔ (یعنی صدقہ خیرات لینے والا کوئی نہیں ہوگا) حتیٰ کہ ایک سجدہ دنیا و مافیہا سے بہتر ہوگا“۔ پھر حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے اگر تم چاہو تو قرآن کی یہ آیت پڑھ لو ﴿وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ﴾ (صحیح بخاری- كتاب الأنبياء) یہ احادیث اتنی کثرت سے آئی ہیں کہ انہیں تواتر کا درجہ حاصل ہے اور انہی متواتر صحیح روایات کی بنیاد پر اہل سنت کے تمام مکاتب کا متفقہ عقیدہ ہے کہ حضرت عیسی (علیہ السلام) آسمان پر زندہ ہیں اور قیامت کے قریب دنیا میں ان کا نزول ہوگا اور دجال کا اور تمام ادیان کا خاتمہ فرما کر اسلام کو غالب فرمائیں گے۔ یاجوج ماجوج کا خروج بھی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہی کی موجودگی میں ہوگا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی دعا کی برکت سے ہی اس فتنے کا بھی خاتمہ ہوگا جیسا کہ احادیث سے واضح ہے۔ 2- یہ گواہی اپنی پہلی زندگی کے حالات سے متعلق ہوگی۔ جیسا کہ سورۂ مائدہ کے آخر میں وضاحت ہے ﴿وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِيهِمْ﴾ میں جب تک ان میں موجود رہا، ان کے حالات سے باخبر رہا۔