إِن تُبْدُوا خَيْرًا أَوْ تُخْفُوهُ أَوْ تَعْفُوا عَن سُوءٍ فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ عَفُوًّا قَدِيرًا
تم بھلائی کی کوئی بات ظاہر طور پر کرو، یا چھپا کر کرو، یا کسی کی برائی سے درگزر کرو (ہر حال میں تمہارے لیے نیکی و احسان کا اجر ہے، اور دیکھو) اللہ بھی (ہر طرح کی) قدرت رکھتا ہوا (برائیوں سے) درگزر کرنے والا ہے
1- کوئی شخص کسی کے ساتھ ظلم یا برائی کا ارتکاب کرے تو شریعت نے اس حد تک بدلہ لینے کی اجازت دی ہے۔ جس حد تک اس پر ظلم ہوا ہے۔ [ الْمُسْتَبَّانِ مَا قَالا، فَعَلَى الْبَادِي، مَا لَمْ يَعْتَدِ الْمَظْلُومُ ] (صحيح مسلم، كتاب البر والصلة والآداب، باب النهي من السباب حديث نمبر4587) ”آپس میں گالی گلوچ کرنے والے دو شخص جو کچھ کہیں اس کا گناہ پہل کرنے والے پر ہے (بشرطیکہ) مظلوم (یعنی جسے پہلے گالی دی گئی اور اس نے جواب میں گالی دی) زیادتی نہ کرے۔“ لیکن بدلہ لینے کی اجازت کے ساتھ ساتھ معافی اور درگزر کو زیادہ پسند فرمایا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ خود باوجود قدرت کاملہ کے عفوودرگزر سے کام لینے والا ہے۔ اس لئے فرمایا ﴿وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ﴾ (الشوریٰ: 40) برائی کا بدلہ، اسی کی مثل برائی ہے، مگر جو درگزر کرے اور اصلاح کرلے تو اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے اور حدیث میں بھی ہے ”معاف کردینے سے اللہ تعالیٰ عزت میں اضافہ فرماتا ہے۔“ (صحیح مسلم کتاب البر والصلۃ والآداب باب استحباب العفو والتواضع)