الَّذِينَ يَتَرَبَّصُونَ بِكُمْ فَإِن كَانَ لَكُمْ فَتْحٌ مِّنَ اللَّهِ قَالُوا أَلَمْ نَكُن مَّعَكُمْ وَإِن كَانَ لِلْكَافِرِينَ نَصِيبٌ قَالُوا أَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَيْكُمْ وَنَمْنَعْكُم مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ ۚ فَاللَّهُ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ وَلَن يَجْعَلَ اللَّهُ لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلًا
ان (منافقوں) کا شیوہ یہ ہے کہ وہ تمہاری حالت دیکھتے رہتے اور (مآل کار کے) منتظر رہتے ہیں۔ اگر تمہیں اللہ کی طرف سے فتح ملتی ہے تو (اپنے کو تمہارا ساتھی ظاہر کرتے ہیں، اور) کہتے ہیں۔ کیا ہم بھی تمہارے ساتھ نہ تھے۔ اگر منکرین حق کے لیے فتح مندی ہوتی ہے تو (ان کی طرف دوڑے جاتے ہیں اور اپنا احسان جتانے کے لیے) کہتے ہیں کیا ہم نے ایسا نہیں کیا کہ (جنگ میں) بالکل غالب آگئے تھے پھر بھی تمہیں مسلمانوں سے بچا لیا۔ تو (یقین کرو) اللہ قیامت کے دن تم میں (کہ سچے مسلمان ہو) اور ان میں (کہ نفاق میں ڈوبے ہوئے ہیں) فیصلہ کردے گا، اور یقین کرو (یہ منافق کتنا ہی دشمنوں کا ساتھ دیں مگر خدا کبھی ایسا کرنے والا نہیں کہ کافر، ایمان رکھنے والوں کے خلاف کوئی راہ پالیں۔
1- یعنی ہم تم پر غالب آنے لگے تھے لیکن تمہیں اپنا ساتھی سمجھ کر چھوڑ دیا اور مسلمانوں کا ساتھ چھوڑ کر ہم نے تمہیں مسلمانوں کے ہاتھوں سے بچایا۔ مطلب یہ کہ تمہیں غلبہ ہماری اس دوغلی پالیسی کے نتیجے میں حاصل ہواہے۔ جو ہم نے مسلمانوں میں ظاہری طور پر شامل ہو کر اپنائے رکھی۔ لیکن درپردہ ان کو نقصان پہنچانے میں ہم نے کوئی کوتاہی اور کمی نہیں کی تاآنکہ تم ان پر غالب آگئے۔ یہ منافقین کا قول ہے جو انہوں نے کافروں سے کہا۔ 2- یعنی دنیا میں تم نے دھوکے اور فریب سے وقتی طور پر کچھ کامیابی حاصل کر لی، لیکن قیامت والے دن اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ان باطنی جذبات وکیفیات کی روشنی میں ہوگا جنہیں تم سینوں میں چھپائے ہوئے تھے، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ تو سینوں کے رازوں کو بھی خوب جانتا ہے اور پھر اس پر جو وہ سزا دے گا تو معلوم ہوگا کہ دنیا میں منافقت اختیار کرکے نہایت خسارے کا سودا کیا تھا، جس پر جہنم کا دائمی عذاب بھگتنا ہوگا۔أَعَاذَنَا اللهُ مِنْهُ 3- یعنی غلبہ نہ دے گا۔ اس کے مختلف مفہوم بیان کئے گئے ہیں۔ (1) اہل اسلام کا یہ غلبہ قیامت والے دن ہوگا۔ (2) حجت اور دلائل کے اعتبار سے کافر مسلمانوں پر غالب نہیں آسکتے۔ (3) کافروں کا ایسا غلبہ نہیں ہوگا کہ مسلمان کی دولت وشوکت کا بالکل خاتمہ ہی ہو جائے اور وہ حرف غلط کی طرح دنیا کے نقشے سے ہی محو ہو جائیں۔ ایک حدیث سے بھی اس مفہوم کی تائید ہوتی ہے۔ (4) جب تک مسلمان اپنے دین کے عامل، باطل سے غیر راضی اور منکرات سے روکنے والے رہیں گے، کافر ان پر غالب نہ آسکیں گے۔ امام ابن العربی فرماتے ہیں کہ ”یہ سب سے عمدہ معنی ہے“ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ ﴿وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ﴾ (الشوری: 30) ”اور جو مصیبت تم پر واقع ہوتی ہے، سو تمہارے اپنے فعلوں کی وجہ سے“ (فتح القدیر) گویا مسلمانوں کی مغلوبیت ان کی اپنی کوتاہیوں کا نتیجہ ہے۔