يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ وَلَوْ عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ ۚ إِن يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقِيرًا فَاللَّهُ أَوْلَىٰ بِهِمَا ۖ فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوَىٰ أَن تَعْدِلُوا ۚ وَإِن تَلْوُوا أَوْ تُعْرِضُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا
مسلمانو ایسے ہوجاؤ کہ انصاف پر پوری مضبوطی کے ساتھ قائم رہنے والے اور اللہ کے لیے (سچی) گواہی دینے والے ہو۔ اگر تمہیں خود اپنے خلاف، یا اپنے ماں باپ اور قرابت داروں کے خلاف بھی گواہی دینی پڑے جب بھی نہ جھجکو۔ اگر کوئی مال دار ہے یا محتاج ہے، تو اللہ (تم سے) زیادہ ان پر مہربانی رکھنے والا ہے۔ (تمہیں ایسا نہ کرنا چاہیے کہ مال دار کی دولت کے لالچ میں یا محتاج کی محتاجی پر ترس کھا کر سچی بات کہنے سے جھجکو)۔ پس (دیکھو) ایسا نہ ہو کہ ہوائے نفس کی پیروی تمہیں انصاف سے باز رکھے۔ اور اگر تم (گواہی دیتے ہوئے) بات کو گھما پھرا کر کہو گے (یعنی صاف صاف کہنا نہ چاہو گے) یا گواہی دینے سے پہلو تہی کروگے تو (یاد رکھو) تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس کی خبر رکھنے والا ہے
1- اس میں اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو عدل وانصاف قائم کرنے اور حق کے مطابق گواہی دینے کی تاکید فرما رہا ہے چاہے اس کی وجہ سے انہیں یا ان کے والدین اور رشتہ داروں کو نقصان ہی اٹھانا پڑے۔ اس لئے کہ حق سب پر حاکم ہے اور سب پر مقدم ہے۔ 2- یعنی کسی مال دار کی مالداری کی وجہ سے رعایت کی جائے نہ کسی فقیر کے فقر کا اندیشہ تمہیں سچی بات کہنے سے روکے بلکہ اللہ ان دونوں سے تمہارے زیادہ قریب اور مقدم ہے۔ 3- یعنی خواہش نفس، عصبیت یا بغض تمہیں انصاف کرنے سے نہ روک دے۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا ﴿وَلا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلا تَعْدِلُوا﴾ (المائدۃ: 8) ”تمہیں کسی قوم کی دشمنی اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو“۔ 4- ”تَلْوُوا“، ”لیی“ سے ہے جو تحریف اور جان بوجھ کر جھوٹ بولنے کو کہا جاتا ہے۔ مطلب شہادت میں تحریف وتغییر ہے اور اعراض سے مراد شہادت کا کتمان (چھپانا) اور اس کا ترک کرنا ہے۔ ان دونوں باتوں سے بھی روکا گیا ہے۔ اس آیت میں عدل وانصاف کی تاکید اور اس کے لئے جن باتوں کی ضرورت ہے، ان کا اہتمام کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ مثلاً: *ہر حال میں عدل کرو اس سے سرمو انحراف نہ کرو، کسی ملامت گر کی ملامت اور کوئی اور محرک اس میں رکاوٹ نہ بنے۔ بلکہ اس کے قیام میں تم ایک دوسرے کے معاون اور دست وبازو بنو۔ * صرف اللہ کی رضا تمہارے پیش نظر ہو، کیونکہ اس صورت میں تم تحریف، تبدیل اور کتمان سے گریز کرو گے اور تمہارا فیصلہ عدل کی میزان میں پورا اترے گا۔ * عدل وانصاف کی زد اگر تم پر یا تمہارے والدین پر یا دیگر قریبی رشتے داروں پر بھی پڑے، تب بھی تم پروا مت کرو اور اپنی اور ان کی رعایت کے مقابلے میں عدل کے تقاضوں کو اہمیت دو۔ * کسی مال دار کی اس کی تونگری کی وجہ سے رعایت نہ کرو اور کسی تنگ دست کے فقر سے خوف مت کھاؤ کیونکہ وہی جانتا ہے کہ ان دونوں کی بہتری کس میں ہے؟ * فیصلے میں خواہش نفس، عصبیت اور دشمنی آڑے نہیں آنی چاہئے۔ بلکہ ان سب کو نظر انداز کرکے بے لاگ عدل کرو۔ عدل کا یہ اہتمام جس معاشرے میں ہوگا، وہاں امن وسکون اور اللہ کی طرف سے رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوگا۔ صحابہ کرام (رضی الله عنہم) نے اس نکتے کو بھی خوب سمجھ لیا تھا، چنانچہ حضرت عبداللہ بن رواحہ (رضی الله عنہ) کی بابت آتا ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے انہیں خیبر کے یہودیوں کے پاس بھیجا کہ وہ وہاں کے پھلوں اور فصلوں کا تخمینہ لگا کر آئیں۔ یہودیوں نے انہیں رشوت کی پیشکش کی تاکہ وہ کچھ نرمی سے کام لیں۔ انہوں نے فرمایا اللہ کی قسم، میں اس کی طرف سے نمائندہ بن کر آیا ہوں جو دنیا میں مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے اور تم میرے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ ہو، لیکن اپنے محبوب کی محبت اور تمہاری دشمنی مجھے اس بات پر آمادہ نہیں کر سکتی کہ میں تمہارے معاملے میں انصاف نہ کروں۔ یہ سن کر انہوں نے کہا اسی عدل کی وجہ سے آسمان وزمین کا یہ نظام قائم ہے (تفسیر ابن کثیر)