أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصْحَابِ الْفِيلِ
اے پیغمبر) کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے پروردگار نے اس لشکر کے ساتھ کیا سلوک کیا جو ہاتھیوں کا ایک غول لے کر مکہ پر حملہ آور ہوا (١)۔
1- جو یمن سے خانہ کعبہ کی تخریب کے لئے آئے تھے أَلَمْ تَرَ کے معنی ہیں أَلَمْ تَعْلَمْ کیا تجھے معلوم نہیں؟ استفہام تقریر کے لئے ہے۔ یعنی تو جانتا ہے یا وہ سب لوگ جانتے ہیں جو تیرے ہم عصر ہیں۔ یہ اس لئےفرمایا کہ عرب میں یہ واقعہ گزرے ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا۔ مشہور ترین قول کے مطابق یہ واقعہ اس سال پیش آیا جس سال نبی (ﷺ) کی ولادت ہوئی تھی۔ اس لئے عربوں میں اس کی خبریں مشہور اور متواتر تھیں۔ یہ واقعہ مختصراً حسب ذیل ہے ۔ واقعہ اصحاب الفیل : حبشہ کے بادشاہ کی طرف سے یمن میں ابرہۃ الاشرم گورنر تھا، اس نے صنعاء میں ایک بہت بڑا گرجا (عبادت گھر) تعمیر کیا اور کوشش کی کہ لوگ خانہ کعبہ کے بجائے عبادت اور حج وعمرہ کے لئے ادھر آیا کریں۔ یہ بات اہل مکہ اور دیگر قبائل عرب کے لئے سخت ناگوار تھی۔ چنانچہ ان میں سے ایک شخص نے ابرہہ کے بنائے ہوئے عبادت خانے کو غلاظت سے پلید کردیا، جس کی اطلاع اس کو کر دی گئی کہ کسی نے اس طرح اس گرجا کو ناپاک کر دیا ہے، جس پراس نے خانہ کعبہ کو ڈھانے کا عزم کر لیا اور ایک لشکر جرار لے کر مکے پر حملہ آور ہوا، کچھ ہاتھی بھی اس کے ساتھ تھے۔ جب یہ لشکر وادی محسر کے پاس پہنچا تو اللہ تعالیٰ نے پرندوں کے غول بھیج دیئےجن کی چونچوں اور پنچوں میں کنکریاں تھیں جو چنے یا مسور کے برابر تھیں، جس فوجی کےبھی یہ کنکری لگتی وہ پگھل جاتا اور اس کا گوشت جھڑ جاتا اور بالآخر مر جاتا۔ خود ابرہہ کابھی صنعاء پہنچتے پہنچتے یہی انجام ہوا۔ اس طرح اللہ نے اپنے گھر کی حفاظت فرمائی۔ مکے کے قریب پہنچ کر ابرہہ کے لشکر نے نبی (ﷺ) کے دادا کے، جو مکے کے سردار تھے، اونٹوں پر قبضہ کر لیا، جس پر عبدالمطلب نے آکر ابرہہ سے کہا کہ تو میرے اونٹ واپس کر دے جو تیرے لشکریوں نے پکڑے ہیں۔ باقی رہا خانہ کعبہ کامسئلہ، جس کو ڈھانے کے لئے تو آیا ہے تو وہ تیرا معاملہ اللہ کے ساتھ ہے، وہ اللہ کا گھر ہے، وہی اس کا محافظ ہے، تو جانے اور بیت اللہ کا مالک اللہ جانے۔ (ایسر التفاسیر) ۔