وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّسَاءِ ۖ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ وَمَا يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ فِي يَتَامَى النِّسَاءِ اللَّاتِي لَا تُؤْتُونَهُنَّ مَا كُتِبَ لَهُنَّ وَتَرْغَبُونَ أَن تَنكِحُوهُنَّ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الْوِلْدَانِ وَأَن تَقُومُوا لِلْيَتَامَىٰ بِالْقِسْطِ ۚ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِهِ عَلِيمًا
اور (اے پیغمبر) لوگ تم سے عورتوں کے بارے میں فتویٰ طلب کرتے ہیں (یعنی حکم دریافت کرتے ہیں) تم کہہ دو، اللہ تمہیں ان کے بارے میں حکم دیتا ہے (جو اب بیان کیا جائے گا) نیز وہ تمہیں یتیم عورتوں کی نسبت بھی حکم دیتا ہے جو تمہیں قرآن میں سنایا جا رہا ہے ( اور پہلے نازل ہوچکا ہے کہ ان کے ساتھ نا انصافی نہ کرو) وہ یتیم عورتیں (جو تمہاری سرپرستی میں ہوتی ہیں اور (جنہیں تم ان کا حق جو (وراثت میں) ان کے لیے ٹھہرایا جا چکا ہے نہیں دیتے اور چاہتے ہو کہ (ان کے مال پر قبضہ کرلینے کے لیے خود) ان سے نکاح کرلو۔ نیز جو کچھ بے بس (یتیم لڑکوں) کی نسبت قرآن میں سنایا جا رہا ہے (اور پہلے نازل ہوچکا ہے) تو اس بارے میں بھی خدا تمہیں حکم دیتا ہے کہ (ان کے) حقوقت تلف نہ کرو۔ اور وہ حکم دیتا ہے کہ یتیموں کے معاملہ میں (خواہ لڑکیاں ہوں خواہ لڑکے ہوں، اور تمہاری سرپرستی میں ہوں یا نہ ہوں ہر حال میں) حق و انصاف کے ساتھ قائم رہو، اور (یاد رکھو) تم بھلائی کی باتوں میں سے جو کچھ کرتے ہو خدا اس کا علم رکھنے والا ہے
* عورتوں کے بارے میں جو سوالات ہوتے رہتے تھے، یہاں سے ان کے جوابات دیئے جا رہے ہیں۔ ** ﴿وَمَا يُتْلَى عَلَيْكُمْ﴾ اس کا عطف ﴿اللهُ يُفْتِيكُمْ﴾ پر ہے یعنی اللہ تعالیٰ ان کی بابت وضاحت فرماتا ہے اور کتاب اللہ کی وہ آیات وضاحت کرتی ہیں جو اس سے قبل یتیم لڑکیوں کے بارے میں نازل ہو چکی ہیں، مراد ہے سورۂ نساء کی آیت 3 جس میں ان لوگوں کو اس بے انصافی سے روکا گیا ہے کہ وہ یتیم لڑکی سے ان کے حسن وجمال کی وجہ سے شادی تو کر لیتے ہیں لیکن مہر مثل دینے سے گریز کرتے تھے۔ *** اس کے دو ترجمے کئے گئے ہیں، ایک تو یہی جو مرحوم مترجم نے کیا ہے، اس میں ”فی“ کا لفظ محذوف ہے۔ اس کا دوسرا ترجمہ ”عن“ کا لفظ محذوف مان کر کیا گیا ہے یعنی ﴿تَرْغَبُونَ عَنْ أَنْ تَنْكِحُوهُنَّ﴾ (تمہیں ان سے نکاح کرنے کی رغبت نہ ہو) رَغِبَ کا صلہ عَنْ آئے تو معنی اعراض اور بے رغبتی کے ہوتے ہیں۔ جیسے ﴿وَمَنْ يَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ إِبْرَاهِيمَ﴾ میں ہے یہ گویا دوسری صورت بیان کی گئی ہے کہ یتیم لڑکی بعض دفعہ بدصورت ہوتی تو اس کے ولی یا اس کے ساتھ وراثت میں شریک دوسرے ورثا خود بھی اس کے ساتھ نکاح کرنا پسند نہ کرتے اور کسی دوسری جگہ بھی اس کا نکاح نہ کرتے، تاکہ کوئی اور شخص اس کے حصہ جائیداد میں شریک نہ بنے۔ اللہ تعالیٰ نے پہلی صورت کی طرح ظلم کی اس دوسری صورت سے بھی منع فرمایا۔ **** اس کا عطف ﴿يَتَامَى النِّسَاءِ﴾ پر ہے۔ یعنی ”وَمَا يُتْلَى عَلَيْكُمْ فِي يَتَامَى النِّسَاءِ وَفِي الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الْوِلْدَانِ“ یتیم لڑکیوں کے بارے میں تم پر جو پڑھا جاتا ہے۔ (سورۃ النساء کی آیت نمبر 3) اور کمزور بچوں کی بابت جو پڑھا جاتا ہے اس سے مراد قرآن کا حکم ﴿يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلادِكُمْ﴾ ہے جس میں بیٹوں کے ساتھ بیٹیوں کو بھی وراثت میں حصہ دار بنایا گیا۔ جب کہ زمانۂ جاہلیت میں صرف بڑے لڑکوں کو ہی وارث سمجھا جاتاتھا، چھوٹے کمزور بچے اور عورتیں وراثت سے محروم ہوتی تھیں۔ شریعت نے سب کو وارث قرار دیا۔ ***** اس کا عطف بھی ﴿يَتَامَى النِّسَاءِ﴾پر ہے۔ یعنی کتاب اللہ کا یہ حکم بھی تم پر پڑھا جاتا ہے کہ یتیموں کے ساتھ انصاف کا معاملہ کرو۔ یتیم بچی صاحب جمال ہو تب بھی اور بدصورت ہو تب بھی۔ دونوں صورتوں میں انصاف کرو (جیسا کہ تفصیل گزری)۔