سورة النسآء - آیت 113

وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ وَرَحْمَتُهُ لَهَمَّت طَّائِفَةٌ مِّنْهُمْ أَن يُضِلُّوكَ وَمَا يُضِلُّونَ إِلَّا أَنفُسَهُمْ ۖ وَمَا يَضُرُّونَكَ مِن شَيْءٍ ۚ وَأَنزَلَ اللَّهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُن تَعْلَمُ ۚ وَكَانَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (اے پیغمبر) اگر تم پر اللہ کا فضل نہ ہوتا، اور اس کی رحمت (کار فرما) نہ ہوتی تو واقعہ یہ ہے کہ ان لوگوں میں سے ایک جماعت نے تو پورا ارادہ کرلیا تھا، کہ (اصل مجرم کی حمایت میں جتھا بندی کر کے) تمہیں غلط راستہ پر ڈال دیں (اور تم بے گناہ آدمی کو مجرم سمجھ لو) یہ لوگ غلط راستہ پر نہیں ڈال رہے ہیں، مگر خود اپنی ہی جانوں کو (کہ حق کی حمایت کرنے کی جگہ جھوٹے کی حمایت کررہے ہیں) یہ (اپنی چالاکیوں سے) تمہیں کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکتے، کیونکہ اللہ نے تم پر کتاب اور حکمت نازل کردی ہے، اور جو باتیں معلوم نہ تھیں وہ تمہیں سکھلا دی ہیں، اور تم پر اس کا بہت ہی بڑا فضل ہے

تفسیر مکہ - حافظ صلاح الدین یوسف حافظ

* یہ اللہ تعالیٰ کی اس خاص حفاظت ونگرانی کا ذکر ہے جس کا اہتمام انبیاء (عليهم السلام) کے لئے فرمایا ہے جو انبیا پر اللہ کے فضل خاص اور اس کی رحمت خاصہ کا مظہر ہے۔ طائفہ (جماعت) سے مراد وہ لوگ ہیں جو بنو ابیرق کی حمایت میں رسول (ﷺ) کی خدمت میں ان کی صفائی پیش کر رہے تھے جس سے یہ اندیشہ پیدا ہو چلا تھا کہ نبی (ﷺ) اس شخص کو چوری کے الزام سے بری کر دیں گے، جو فی الواقع چور تھا۔ ** یہ دوسرے فضل واحسان کا تذکرہ ہے جو آپ (ﷺ) پر کتاب وحکمت (سنت) نازل فرما کر اور ضروری باتوں کا علم دے کر فرمایا گیا۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا: ﴿وَكَذَلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِنْ أَمْرِنَا مَا كُنْتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلا الإِيمَانُ﴾ (الشوریٰ: 52) ”اور اسی طرح بھیجا ہم نے تیری طرف (قرآن لے کر) ایک فرشتہ اپنے حکم سے تو نہیں جانتا تھاکہ کتاب کیا ہے اور ایمان کیا ہے؟“۔ ﴿وَمَا كُنْتَ تَرْجُو أَنْ يُلْقَى إِلَيْكَ الْكِتَابُ إِلا رَحْمَةً مِنْ رَبِّكَ﴾ ( القصص:86) ”اور تجھے یہ توقع نہیں تھی کہ تجھ پر کتاب اتاری جائے گی، مگر تیرے رب کی رحمت سے (یہ کتاب اتاری گئی)“ ان تمام آیات سے معلوم ہوا کہ اللہ نے آپ (ﷺ) پر فضل واحسان فرمایا اور کتاب وحکمت بھی عطا فرمائی، ان کے علاوہ دیگر بہت سی باتوں کا آپ (ﷺ) کو علم دیا گیا جن سے آپ (ﷺ) بےخبر تھے۔ یہ بھی گویا آپ (ﷺ) کے عالم الغیب ہونے کی نفی ہے کیونکہ جو خود عالم الغیب ہو، اسے تو کسی اور سے علم حاصل کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی اور جسے دوسرے سے معلومات حاصل ہوں، وحی کے ذریعے سے یا کسی اور طریقے سے وہ عالم الغیب نہیں ہوتا۔