إِن تَجْتَنِبُوا كَبَائِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَنُدْخِلْكُم مُّدْخَلًا كَرِيمًا
اگر تم ان بڑے بڑے گناہوں سے پرہیز کرو جن سے تمہیں روکا گیا ہے تو تمہاری چھوٹی برائیوں کا ہم خود کفارہ کردیں گے۔ (٢٦) اور تم کو ایک باعزت جگہ داخل کریں گے۔
1- کبیرہ گناہ کی تعریف میں اختلاف ہے۔ بعض کےنزدیگ وہ گناہ ہیں جن پر حد مقرر ہے، بعض کے نزدیک وہ گناہ جس پر قرآن میں یا حدیث میں سخت وعید یا لعنت آئی ہے، بعض کہتے ہیں کہ ہر وہ کام جس سے اللہ نے یا اس کے رسول نے بطور تحریم کے روکا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے کوئی ایک بات بھی کسی گناہ میں پائی جائے تو وہ کبیرہ ہے۔ احادیث میں مختلف کبیرہ گناہوں کا ذکر ہے جنہیں بعض علما نے ایک کتاب میں جمع بھی کیا ہے۔ جیسے الكبائر للذهبي، الزواجر عن اقتراف الكبائر للهيتمي وغیرہ۔ یہاں یہ اصول بیان کیا گیا ہے کہ جو مسلمان کبیرہ گناہوں مثلاً شرک، عقوق والدین، جھوٹ وغیرہ سے اجتناب کرے گا تو ہم اس کے صغیرہ گناہ معاف کر دیں گے۔ سورۂ نجم میں بھی یہ مضمون بیان کیا گیا ہے، البتہ وہاں کبائر کے ساتھ فواحش (بے حیائی کے کاموں) سے اجتناب کوبھی صغیرہ گناہوں کی معافی کے لئے ضروری قرار دیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں صغیرہ گناہوں پر اصرار ومداومت بھی صغیرہ گناہوں کو کبائر بنا دیتے ہیں۔ اسی طرح اجتناب کبائر کے ساتھ احکام وفرائض اسلام کی پابندی اور اعمال صالحہ کا اہتمام بھی نہایت ضروری ہے۔ صحابہ کرام (رضي الله عنهم) نے شریعت کے اس مزاج کو سمجھ لیا تھا، اس لئے انہوں نے صرف وعدۂ مغفرت پر ہی تکیہ نہیں کیا، بلکہ مغفرت ورحمت الٰہی کے یقینی حصول کے لئے مذکورہ تمام ہی باتوں کا اہتمام کیا۔ جب کہ ہمارا دامن عمل سے تو خالی ہے لیکن ہمارے قلب امیدوں اور آرزؤں سے معمور ہیں۔