وَالَّذِينَ جَاءُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ
اور (اموال فے میں ان لوگوں کا بھی حق ہے) جو ان کے بعد آئے ہیں جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو بخش دے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں اور ہمارے دلوں میں اہل ایمان کے لیے بغض وعداوت کو جگہ نہ دے، اور اے ہمارے پروردگار، تو بڑی شفقت کرنے والا نہایت مہربان ہے
1- یہ مال فیء کے مستحقین کی تیسری قسم ہے، یعنی صحابہ (رضی الله عنہم) کے بعد آنے والے اور صحابہ کے نقش قدم پر چلنے والے۔ اس میں تابعین اور تبع تابعین اور قیامت تک ہونے والے اہل ایمان وتقویٰ آگئے۔ لیکن شرط یہی ہے کہ وہ انصار ومہاجرین کو مومن ماننے اور ان کے حق میں دعائے مغفرت کرنے والے ہوں نہ کہ ان کے ایمان میں شک کرنے اور ان پر سب وشتم کرنے اور ان کے خلاف اپنے دلوں میں بغض وعناد رکھنے والے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے اس آیت سے استنباط کرتے ہوئے یہی بات ارشاد فرمائی ہے ( إِنَّ الرَّافِضِيَّ الَّذِي يَسُبُّ الصَّحَابَةَ لَيْسَ لَهُ فِي مَالِ الْفَيْءِ نَصِيبٌ لِعَدَمِ اتِّصَافِهِ بِمَا مَدَحَ اللهُ بِهِ هَؤُلاءِ فِي قُلُوبِهِمْ ) ”رافضی کو جو صحابہ کرام (رضی الله عنہم) پر سب وشتم کرتے ہیں مال فیء سے حصہ نہیں ملے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام (رضی الله عنہم) کی مدح کی ہے اور رافضی ان کی مذمت کرتے ہیں“۔ (ابن کثیر) اور حضرت عائشہ (رضی الله عنہا) فرماتی ہیں۔ ( أُمِرْتُمْ بِالاسْتِغْفَارِ لأَصْحَابِ النَّبِي ﷺ فَسَبَبْتُمُوهُمْ! سَمِعْتُ نَبِيَّكُمْ يَقُولُ ) : [ لا تَذْهَبُ هَذِهِ الأمَّةُ حَتَّى يَلْعَنَ آخِرُهَا أَوَّلَهَا .... ] (رواه البغوي) ”تم لوگوں کو اصحاب محمد (ﷺ) کے لیے استغفار کا حکم دیا گیا۔ مگر تم نے ان پر لعن طعن کی۔ میں نے تمہارے نبی (ﷺ) کو فرماتے ہوئے سنا کہ یہ امت اس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک کہ اس کے آخرین اولین پر لعنت نہ کریں“۔ (حوالۂ مذکور)