سورة الحديد - آیت 16

أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَن تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللَّهِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ وَلَا يَكُونُوا كَالَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلُ فَطَالَ عَلَيْهِمُ الْأَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُهُمْ ۖ وَكَثِيرٌ مِّنْهُمْ فَاسِقُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

کیامومنین کے لیے وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کے ذکر اور جو حق نازل ہوا اس کے سامنے جھک جائیں اور ان کی طرح نہ ہوجائیں جن کو اس سے پہلے کتاب دی گئی تھی پھر ان پر ایک طویل مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہوگئے اور (اب ان کی حالت یہ ہے کہ) ان میں اکثر فاسق بنے ہوئے ہیں

تفسیر مکہ - حافظ صلاح الدین یوسف حافظ

* خطاب اہل ایمان کو ہے۔ اور مطلب ان کو اللہ کی یاد کی طرف مزید متوجہ اور قرآن کریم سے کسب ہدایت کی تلقین کرنا ہے۔ خشوع کے معنی ہیں، دلوں کا نرم ہو کر اللہ کی طرف جھک جانا، حق سے مراد قرآن کریم ہے۔ ** جیسے یہود ونصاریٰ ہیں۔ یعنی تم ان کی طرح نہ ہو جانا۔ *** چنانچہ انہوں نے اللہ کی کتاب میں تحریف اور تبدیلی کر دی، اس کے عوض دنیاکا ثمن قلیل حاصل کرنے کو انہوں نے شعار بنا لیا، اس کے احکام کو پس پشت ڈال دیا، اللہ کے دین میں لوگوں کی تقلید اختیار کرلی اور ان کو اپنا رب بنا لیا،مسلمانوں کو متنبہ کیا جا رہا ہے کہ تم یہ کام مت کرو ورنہ تمہارے دل بھی سخت ہو جائیں گے اور پھر یہی کام جو ان پر لعنت الٰہی کا سبب بنے، تمہیں اچھے لگیں گے۔ **** یعنی ان کے دل فاسد اوراعمال باطل ہیں۔ دوسرے مقام پر اللہ نےفرمایا: ﴿فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِيثَاقَهُمْ لَعَنَّاهُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوبَهُمْ قَاسِيَةً يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِهِ وَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ﴾ (المائدة: 13)۔