يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا
اے لوگو ! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا، اور اسی سے اس کی بیوی پیدا کی، اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں (دنیا میں) پھیلا دیئے۔ اور اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حقوق مانگتے ہو، (١) اور رشتہ داریوں (کی حق تلفی سے) ڈرو۔ یقین رکھو کہ اللہ تمہاری نگرانی کررہا ہے۔
1- ایک جان سے مراد ابو البشر حضرت آدم (عليه السلام) ہیں اور﴿خَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا﴾میں مِنْهَا سے وہی جان یعنی آدم (عليه السلام) مراد ہیں یعنی آدم (عليه السلام) سے ان کی زوج (بیوی) حضرت حوا کو پیدا کیا۔ حضرت حوا حضرت آدم (عليه السلام) سے کس طرح پیدا ہوئیں اس میں اختلاف ہے حضرت ابن عباس (رضي الله عنه) سے قول مروی ہے کہ حضرت حوا مرد (یعنی آدم عليه السلام) سے پیدا ہوئیں۔ یعنی ان کی بائیں پسلی سے۔ ایک حدیث میں کہا گیا ہے۔ [ إِنَّ الْمَرْأَةَ خُلِقَتْ مِنْ ضِلَعٍ أَعْوَجَ وِإِنَّ أَعْوَجَ شَيْءٍ فِي الضِّلَعِ أَعْلاهُ ] (صحیح بخاری، کتاب بدء الخلق، صحیح مسلم، کتاب الرضاع) ”کہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور پسلی میں سب سے ٹیڑھا حصہ، اس کا بالائی حصہ ہے۔ اگر تو اسے سیدھا کرنا جاہے تو توڑ بیٹھے گا اور اگر تو اس سے فائدہ اٹھانا چاہے تو کجی کے ساتھ ہی فائدہ اٹھا سکتا ہے“۔ بعض علماء نے اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے حضرت ابن عباس (رضي الله عنه) سے منقول رائے کی تائید کی ہے۔ قرآن کے الفاظ ﴿خَلَقَ مِنْهَا﴾ سے اسی موقف کی تائید ہوتی ہے حضرت حوا کی تخلیق اسی نفس واحدہ سے ہوئی جسے آدم کہا جاتا ہے۔ 2- وَالأَرْحَامَ کا عطف اللہ پر ہے یعنی رحموں (رشتوں ناطوں) کو توڑنے سے بھی بچو۔ أَرْحَامٌ، رَحِمٌ کی جمع ہے۔ مراد رشتے داریاں ہیں جو رحم مادر کی بنیاد پر ہی قائم ہوتی ہیں۔ اس سے محرم اور غیر محرم دونوں رشتے مراد ہیں رشتوں ناطوں کا توڑنا سخت کبیرہ گناہ ہے جسے قطع رحمی کہتے ہیں۔ احادیث میں قرابت داریوں کو ہر صورت میں قائم رکھنے اور ان کے حقوق ادا کرنے کی بڑی تاکید اورفضیلت بیان کی گئی ہے جسے صلہ رحمی کہاجاتا ہے۔