فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ أَنِّي لَا أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنكُم مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ ۖ بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ ۖ فَالَّذِينَ هَاجَرُوا وَأُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِمْ وَأُوذُوا فِي سَبِيلِي وَقَاتَلُوا وَقُتِلُوا لَأُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَلَأُدْخِلَنَّهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ثَوَابًا مِّنْ عِندِ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عِندَهُ حُسْنُ الثَّوَابِ
چنانچہ ان کے پروردگار نے ان کی دعا قبول کی (اور کہا) کہ : میں تم میں سے کسی کا عمل ضائع نہیں کروں گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت۔ تم سب آپس میں ایک جیسے ہو۔ لہذا جن لوگوں نے ہجرت کی، اور انہیں ان کے گھروں سے نکالا گیا، اور میرے راستے میں تکلیفیں دی گئیں، اور جنہوں نے (دین کی خاطر) لڑائی لڑی اور قتل ہوئے، میں ان سب کی برائیوں کا ضرور کفارہ کردوں گا، اور انہیں ضرور بالضرور ایسے باغات میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ یہ سب کچھ اللہ کی طرف سے انعام ہوگا، اور اللہ ہی ہے جس کے پاس بہترین انعام ہے۔
* فَاسْتَجَابَ یہاں أَجَابَ یعنی قبول فرمالی کے معنی میں ہے۔ (فتح القدیر) ** مرد ہو یا عورت کی وضاحت اس لئے کر دی کہ اسلام نے بعض معاملات میں، مرد اور عورت کے درمیان ان کے ایک دوسرے سے مختلف فطری اوصاف کی بنا پر جو فرق کیا ہے۔ مثلاً قوامیت وحاکمیت میں، کسب معاش کی ذمہ داری میں، جہاد میں حصہ لینے میں اور وراثت میں نصف حصہ ملنے میں، اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ نیک اعمال کی جزا میں بھی شاید مرد وعورت کے درمیان کچھ فرق کیا جائے گا، نہیں ایسا نہیں ہوگا بلکہ ہر نیکی کا جواجر ایک مرد کو ملے گا، وہ نیکی اگر ایک عورت کرے گی تو اس کو بھی وہی اجر ملے گا۔ *** یہ جملہ معترضہ ہے اور اس کا مقصد پچھلے نکتے کی ہی وضاحت ہے یعنی اجرواطاعت میں تم مرد اور عورت ایک ہی ہو یعنی ایک جیسے ہی ہو۔ بعض روایات میں ہے کہ حضرت ام سلمہ (رضی الله عنها) نے ایک مرتبہ عرض کیا یا رسول اللہ ! اللہ تعالیٰ نے ہجرت کے سلسلے میں عورتوں کا نام نہیں لیا۔ جس پر یہ آیت نازل ہوئی (تفسیر طبری، ابن کثیر وفتح القدیر)