وَآمِنُوا بِمَا أَنزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ وَلَا تَكُونُوا أَوَّلَ كَافِرٍ بِهِ ۖ وَلَا تَشْتَرُوا بِآيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلًا وَإِيَّايَ فَاتَّقُونِ
اور اس کلام پر ایمان لاﷺ جو میں نازل کیا ہے، اور جو اس کلام کی تصدیق کرتا ہوا نمایاں ہوا ہے جو تمہارے پاس (پہ ٩ لے سے) موجود ہے اور ایسا نہ کرو کہ اس کے انکار میں (شقاوت کا) پہلا قدم جو اٹھے وہ تمہارا ہو۔ اور (دیکھو) میرے سوا کوئی نہیں، پس میری نافرمانی سے بچو
1-”بِهِ“ کی ضمیر قرآن کی طرف، یا حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ) کی طرف ہے۔ دونوں ہی قول صحیح ہیں کیونکہ دونوں آپس میں لازم وملزوم ہیں، جس نے قرآن کے ساتھ کفر کیا، اس نے محمد رسول اللہ (ﷺ) کے ساتھ کفر کیا اور جس نے محمد (ﷺ) کے ساتھ کفر کیا، اس نے قرآن کے ساتھ کفر کیا (ابن کثیر) ”پہلے کافر نہ بنو“ کا مطلب ہے کہ ایک تو تمہیں جو علم ہے دوسرے اس سے محروم ہیں، اس لئے تمہاری ذمہ داری سب سے زیادہ ہے۔ دوسرے، مدینہ میں یہود کو سب سے پہلے دعوت ایمان دی گئی، ورنہ ہجرت سے پہلے بہت سے لوگ قبول اسلام کرچکے تھے۔ اس لئے انہیں تنبیہ کی جارہی ہےکہ یہودیوں میں تم اولین کافر مت بنو۔ اگر ایسا کرو گے تو تمام یہودیوں کے کفر و جحود کا وبال تم پر پڑے گا۔ 2- ”تھوڑی قیمت پر فروخت نہ کرو“ کا یہ مطلب نہیں کہ زیادہ معاوضہ مل جائے تو احکام الٰہی کا سودا کرلو۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ احکام الٰہی کے مقابلے میں دنیاوی مفادات کو اہمیت نہ دو۔ احکام الٰہی تو اتنے قیمتی ہیں کہ ساری دنیا کا مال ومتاع بھی ان کے مقابلے میں ہیچ اور ثمن قلیل ہے۔ آیت میں اصل مخاطب اگرچہ بنی اسرائیل ہیں، لیکن یہ حکم قیامت تک آنے والوں کے لئے ہے، جو بھی ابطال حق یا اثبات باطل یا کتمان علم کا ارتکاب اور احقاق حق سے محض طلب دنیا کے لئے، گریز کرے گا وہ اس وعید میں شامل ہوگا۔ (فتح القدیر)