سورة آل عمران - آیت 179

مَّا كَانَ اللَّهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلَىٰ مَا أَنتُمْ عَلَيْهِ حَتَّىٰ يَمِيزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ ۗ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يَجْتَبِي مِن رُّسُلِهِ مَن يَشَاءُ ۖ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ ۚ وَإِن تُؤْمِنُوا وَتَتَّقُوا فَلَكُمْ أَجْرٌ عَظِيمٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اللہ ایسا نہیں کرسکتا کہ مومنوں کو اس حالت پر چھوڑ رکھے جس پر تم لوگ اس وقت ہو، جب تک وہ ناپاک کو پاک سے الگ نہ کردے، اور (دوسری طرف) وہ ایسا بھی نہیں کرسکتا کہ تم کو (براہ راست) غیب کی باتیں بتا دے۔ ہاں وہ (جتنا بتانا مناسب سمجھتا ہے اس کے لیے) اپنے پیغمبروں میں سے جس کو چاہتا ہے چن لیتا ہے۔ (٦٠) لہذا تم اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھو، اور اگر ایمان رکھو گے اور تقوی اختیار کرو گے تو زبردست ثواب کے مستحق ہوگے۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- اس لئے اللہ تعالیٰ ابتلا کی بھٹی سے ضرور گزارتا ہے تاکہ اس کے دوست واضح اور دشمن ذلیل ہو جائیں۔ مومن صابر، منافق سے الگ ہو جائیں جس طرح احد میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو آزمایا جس سے ان کے ایمان، صبر وثبات اور جذبہ اطاعت کا اظہار ہوا اور منافقین نے اپنے اوپر جو نفاق کا پردہ ڈال رکھا تھا وہ بے نقاب ہوگیا۔ 2- یعنی اگر اللہ تعالیٰ اس طرح ابتلا کے ذریعےسے لوگوں کے حالات اور ان کے ظاہر وباطن کو نمایاں نہ کرے تو تمہارے پاس کوئی غیب کا علم تو ہے نہیں کہ جس سے تم پر یہ چیزیں منکشف ہو جائیں اور تم جان سکو کہ کون منافق ہے اور کون مومن خالص؟۔ 3- ہاں البتہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہتا ہے غیب کا علم عطا فرماتا ہے جس سے بعض دفعہ ان پر منافقین کا اور ان کے حالات اور ان کی سازشوں کا راز فاش ہو جاتا ہے۔ یعنی یہ بھی کسی کسی وقت اور کسی کسی نبی پر ہی ظاہر کیا جاتا ہے۔ ورنہ عام طور پر نبی بھی (جب تک اللہ تعالیٰ نہ چاہے) منافقین کے اندرونی نفاق اور ان کے مکروکید سے بے خبر ہی رہتا ہے (جس طرح کہ سورۂ توبہ کی آیت نمبر 101 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اعراب اور اہل مدینہ میں جو منافق ہیں اے پیغمبر! آپ ان کو نہیں جانتے، ہم انہیں جانتے ہیں) اس کا دوسرا مفہوم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ غیب کا علم ہم صرف اپنے رسولوں کو ہی عطا کرتے ہیں کیونکہ یہ ان کی منصبی ضرورت ہے۔ اس وحی الٰہی اور امور غیبیہ کے ذریعے سے ہی وہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتے اور اپنے کو اللہ کا رسول ثابت کرتے ہیں ؟ اس مضمون کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان کیا گیا ہے﴿عَالِمُ الْغَيْبِ فَلا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا، إِلا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَسُولٍ﴾ ( الجن:26-27) ”عالم الغیب اللہ تعالیٰ ہے، اور وہ اپنے غیب سے پسندیدہ رسولوں کو ہی خبردار کرتا ہے“ ظاہر بات ہے یہ امور غیبیہ وہی ہوتے ہیں جن کا تعلق منصب وفرائض رسالت کی ادائیگی سے ہوتا ہے نہ کہ مَا كَانَ وَمَا يَكُونُ جو کچھ ہو چکا اور آئندہ قیامت تک جو ہونے والے ہے کاعلم۔ جیسا کہ بعض اہل باطل اس طرح کا علم غیب انبیاء علیھم السلام کے لئے اور کچھ اپنے ”ائمہ معصومین“ کے لئے باور کراتے ہیں۔