سورة آل عمران - آیت 173

الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

وہ لوگ جن سے کہنے والوں نے کہا تھا : یہ ( مکہ کے کافر) لوگ تمہارے ( مقابلے) کے لیے (پھر سے) جمع ہوگئے ہیں، لہذا ان سے ڈرتے رہنا، تو اس (خبر) نے ان کے ایمان میں اور اضافہ کردیا اور وہ بول اٹھے کہ : ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے۔ (٥٩)

تفسیر مکہ - حافظ صلاح الدین یوسف حافظ

* حمراء الاسد اور کہا جاتا ہے کہ بدر صغریٰ کے موقع پر ابوسفیان نے بعض لوگوں کی خدمات مالی معاوضہ دے کر حاصل کیں اور ان کے ذریعے مسلمانوں میں یہ افواہ پھیلائی کہ مشرکین مکہ لڑائی کے لئے بھرپور تیاری کر رہے ہیں تاکہ یہ سن کر مسلمانوں کے حوصلے پست ہو جائیں۔ بعض روایات کی رو سے یہ کام شیطان نے اپنے چیلے چانٹوں کے ذریعے سے کیا۔ لیکن مسلمان اس قسم کی افواہیں سن کر خوف زدہ ہونے کے بجائے، مزید عزم وولولہ سے سرشار ہوگئے جس کو یہاں ایمان کی زیادتی سے تعبیر کیا گیا ہے، کیونکہ ایمان جتنا پختہ ہوگا، جہاد کا عزم اور ولولہ بھی اتنا ہی زیادہ ہوگا۔ یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ ایمان جامد قسم کی چیز نہیں ہے بلکہ اس میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے، جیسا کہ محدثین کا مسلک ہے، یہ بھی معلوم ہوا کہ ابتلا ومصیبت کے وقت اہل ایمان کا شیوہ اللہ پر اعتماد وتوکل ہے، اسی لئے حدیث میں بھی [حَسْبُنَا اللهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ ] پڑھنے کی فضیلت وارد ہے۔ نیز صحیح بخاری وغیرہ میں ہے حضرت ابراہیم (عليه السلام) کو جب آگ میں ڈالا گیا تو آپ کی زبان پر یہی الفاظ تھے۔ (فتح القدیر )