سورة الفتح - آیت 27

لَّقَدْ صَدَقَ اللَّهُ رَسُولَهُ الرُّؤْيَا بِالْحَقِّ ۖ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِن شَاءَ اللَّهُ آمِنِينَ مُحَلِّقِينَ رُءُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ لَا تَخَافُونَ ۖ فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوا فَجَعَلَ مِن دُونِ ذَٰلِكَ فَتْحًا قَرِيبًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کوسچا خواب دکھلایا ہے جوحق کے مطابق ہے انشاء اللہ تم ضرورمسجد حرام میں امن وامان کے ساتھ داخل ہوگے اپنے سرمنڈواتے اور بال ترشواتے رہو گے اور تمہیں کسی طرح کا خوف نہ ہوگا اور اللہ تعالیٰ اس بات سے واقف ہے جسے تم نہیں جانتے اس لیے اس (مسجد حرام میں داخل ہونے) سے پہلے اس نے ایک قریبی فتح (تم کو) عنایت کردی۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- واقعہ حدیبیہ سے پہلے رسول اللہ (ﷺ) کو خواب میں مسلمانوں کے ساتھ بیت اللہ میں داخل ہو کر طواف وعمرہ کرتے ہوئے دکھایا گیا۔ نبی کا خواب بھی بمنزلۂ وحی ہی ہوتا ہے۔ تاہم اس خواب میں یہ تعیین نہیں تھی کہ یہ اسی سال ہوگا، لیکن نبی (ﷺ) اور مسلمان، اسے بشارت عظیمہ سمجھتے ہوئے، عمرےکے لئے فوراً آمادہ ہوگئے اور اس کے لئے عام منادی کرا دی گئی اور چل پڑے۔ بالآخر حدیبیہ میں وہ صلح ہوئی، جس کی تفصیل ابھی گزری، دراں حالیکہ اللہ کے علم میں اس خواب کی تعبیر آئندہ سال تھی، جیسا کہ آئندہ سال مسلمانوں نے نہایت امن کے ساتھ یہ عمرہ کیا اور اللہ نے اپنے پیغمبر کے خواب کو سچا کر دکھایا۔ 2- یعنی اگر حدیبیہ کے مقام پر صلح نہ ہوتی تو جنگ سے مکے میں مقیم کمزور مسلمانوں کو نقصان پہنچتا، صلح کے ان فوائد کو اللہ ہی جانتا تھا۔ 3- اس سے فتح خیبر وفتح مکہ کے علاوہ، صلح کے نتیجےمیں جو بہ کثرت مسلمان ہوئے وہ بھی مراد ہے، کیونکہ وہ بھی فتح کی ایک عظیم قسم ہے۔ صلح حدیبیہ کے موقعہ پر مسلمان ڈیڑھ ہزار تھے، اس کے دو سال بعد جب مسلمان مکے میں فاتحانہ طور پر داخل ہوئے تو ان کی تعداد دس ہزار تھی۔