سورة محمد - آیت 38

هَا أَنتُمْ هَٰؤُلَاءِ تُدْعَوْنَ لِتُنفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَمِنكُم مَّن يَبْخَلُ ۖ وَمَن يَبْخَلْ فَإِنَّمَا يَبْخَلُ عَن نَّفْسِهِ ۚ وَاللَّهُ الْغَنِيُّ وَأَنتُمُ الْفُقَرَاءُ ۚ وَإِن تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُونُوا أَمْثَالَكُم

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

سن رکھو تم وہ لوگ ہو کہ جب تم کو دعوت دی جاتی ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرو تو تم میں سے بعض وہ ہیں کہ بخل کرتے ہیں اور جو شخص بخل کرتا ہے وہ درحقیقت اپنی ہی ذات سے بخل کرتا ہے اللہ توغنی ہے اور تم اس کے محتاج ہو اگر تم روگردانی کی راہ اختیار کرو گے تو وہ تمہاری جگہ دوسرے قوم کولے آئے گا پھر وہ تم جیسے (بخیل اور نافرمان) نہ ہوں گے۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- یعنی کچھ حصہ زکوٰۃ کے طور پر اور کچھ اللہ کے راستے میں خرچ کرو۔ 2- یعنی اپنے ہی نفس کو انفاق فی سبیل اللہ کے اجر سے محروم رکھتا ہے۔ 3- یعنی اللہ تمہیں خرچ کرنے کی ترغیب اس لئے نہیں دیتا کہ وہ تمہارے مال کا ضرورت مند ہے۔ نہیں، وہ تو غنی ہے، بے نیاز ہے، وہ تو تمہارے ہی فائدے کے لئے تمہیں یہ حکم دیتا ہے کہ اس سے ایک تو تمہارے اپنےنفسوں کا تزکیہ ہو۔ دوسرے، تمہارے ضرورت مندوں کی حاجتیں پوری ہوں۔ تیسرے، تم دشمن پر غالب اور برتر رہو۔ اس لئے اللہ کی رحمت اور مدد کے محتاج تم ہو نہ کہ اللہ تمہارا محتاج ہے۔ 4- یعنی اسلام سے کفر کی طرف پھر جاؤ۔ 5- بلکہ تم سے زیادہ اللہ اور رسول کے اطاعت گزار اور اللہ کی راہ میں خوب خرچ کرنے والےہوں گے۔ نبی (ﷺ) سے اس کی بابت پوچھا گیا تو آپ (ﷺ) نےحضرت سلمان فارسی (رضی الله عنہ) کےکندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا اس سے مراد یہ اور اس کی قوم ہے۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر ایمان ثریا (ستارے) کے ساتھ بھی لٹکا ہوا ہو تو اس کو فارس کے کچھ لوگ حاصل کر لیں گے۔ (الترمذی، ذكره الألباني في الصحيحة 3 / 14)۔