سورة الأحقاف - آیت 29

وَإِذْ صَرَفْنَا إِلَيْكَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُونَ الْقُرْآنَ فَلَمَّا حَضَرُوهُ قَالُوا أَنصِتُوا ۖ فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا إِلَىٰ قَوْمِهِم مُّنذِرِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (یہ واقعہ بھی ذکر کیجئے) جب ہم نے جنوں کی ایک جماعت کو آپ کی جانب متوجہ کردیا تاکہ وہ قرآن سنیں، سوجب وہ اس جگہ آپہنچے تو آپس میں کہنے لگے خاموش ہوجاؤ پھر جب قرآن کی تلاوت ہوچکی تو وہ منذر بن کر اپنی قوم کے پاس واپس آگئے

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- صحیح مسلم کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ مکہ کے قریب نخلہ وادی میں پیش آیا، جہاں آپ (ﷺ) صحابہ کرام (رضی الله عنہم) کو فجر کی نماز پڑھا رہے تھے۔ جنوں کو تجسس تھا کہ آسمان پر بہت زیادہ سختی کر دی گئی ہے اور اب ہمارا وہاں جانا تقریباً ناممکن بنا دیا گیا ہے، کوئی بہت ہی اہم واقعہ رونما ہوا ہے جس کے نتیجے میں ایسا ہوا ہے۔ چنانچہ مشرق ومغرب کے مختلف اطراف میں جنوں کی ٹولیاں واقعے کا سراغ لگانے کے لئے پھیل گئیں۔ ان ہی میں سے ایک ٹولی نے یہ قرآن سنا اور بات سمجھ لی کہ نبی (ﷺ) کی بعثت کا یہ واقعہ ہی ہم پر آسمان کی بندش کا سبب ہے۔ اور جنوں کی یہ ٹولی آپ پر ایمان لے آئی اور جاکر اپنی قوم کو بھی بتلایا (مسلم، كتاب الصلاة، باب الجهر بالقراءة في الصبح والقراءة على الجن - صحيح بخاری میں بھی بعض باتوں کا تذکرہ ہے۔ كتاب مناقب الأنصار، باب ذكر الجن) بعض دیگر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بعد آپ (ﷺ) جنوں کی دعوت پر ان کے ہاں بھی تشریف لے گئے اور انہیں جاکر اللہ کا پیغام سنایا، اور متعدد مرتبہ جنوں کا وفد آپ کی خدمت میں بھی حاضر ہوا۔ (فتح الباری، تفسیر ابن کثیر وغیرہ)۔ 2- یعنی آپ (ﷺ) کی طرف سے تلاوت قرآن ختم ہوگئی۔