وَقَالُوا يَا أَيُّهَ السَّاحِرُ ادْعُ لَنَا رَبَّكَ بِمَا عَهِدَ عِندَكَ إِنَّنَا لَمُهْتَدُونَ
اور ہر عذآب کے موقع پر وہ کہتے اے جادوگر ! تو اپنے رب کے اس عہد کی بنا پر جو اس نے تم سے کررکھا ہے ہمارے لیے دعا کرہم ضرور راہ راست پر آجائیں گے
* کہتے ہیں اس زمانے میں جادو مذموم چیز نہیں تھی اور عالم فاضل شخص کو جادوگر کے لفظ سے ہی بطور تعظیم خطاب کیا جاتا تھا۔ علاوہ ازیں معجزات اور نشانیوں کے بارے میں بھی ان کا خیال تھا کہ یہ موسیٰ (عليہ السلام) کے فن جادوگری کا کمال ہے۔ اس لیے انہوں نے موسیٰ کو جادوگر کے لفظ سے مخاطب کیا۔ ** (اپنے رب سے) کے الفاظ اپنی مشرکانہ ذہنیت کی وجہ سے کہے کیونکہ مشرکوں میں مختلف رب اور الٰہ ہوتے تھے، موسیٰ (علیہ السلام) اپنے رب سے یہ کام کر والو ! *** یعنی ہمارے ایمان لانے پر عذاب ٹالنے کا وعدہ۔ **** اگر یہ عذاب ٹل گیا تو ہم تجھے اللہ کا سچا رسول مان لیں گے اور تیرے ہی رب کی عبادت کریں گے۔ لیکن ہر دفعہ وہ اپنا یہ عہد توڑ دیتے، جیسا کہ اگلی آیت میں ہے اور سورۂ اعراف میں بھی گزرا۔