وَزُخْرُفًا ۚ وَإِن كُلُّ ذَٰلِكَ لَمَّا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۚ وَالْآخِرَةُ عِندَ رَبِّكَ لِلْمُتَّقِينَ
اور یہ تو مثال کے لیے چاندی کی قید لگائی گئی سمجھ لو کہ چاندی نہیں بلکہ یہ سب کچھ خالص سونے ہی کابنادیا ہوتا لیکن پھر بھی یہ سامان اس دنیا کی زندگی کے چند روزہ فائدے کے ہیں اور آخرت کی کامیابی تو اللہ کے پاس صاحبان ارتقا وحق کے لیے ہے
1- یعنی بعض چیزیں چاندی کی اور بعض سونے کی، کیونکہ تنوع میں حسن زیادہ نمایاں ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ دنیا کا مال ہماری نظر میں اتنا بے وقعت ہے کہ اگر مذکورہ خطرہ نہ ہوتا تو اللہ کے سب منکروں کو خوب دولت دی جاتی لیکن اس میں خطرہ یہی تھا کہ پھر سب لوگ ہی دنیا کے پرستار نہ بن جائیں۔ دنیا کی حقارت اس حدیث سے بھی واضح ہے جس میں فرمایا گیا ہے۔ [ لَوْ كَانَتِ الدُّنْيَا تَزِنُ عِنْدَ اللهِ جَنَاحَ بَعُوضَةٍ مَا سَقَى مِنْهَا كَافِرًا شُرْبَةَ مَاءٍ ] (ترمذی ، ابن ماجه ، كتاب الزهد ) ”اگر دنیا کی اللہ کے ہاں اتنی حیثیت بھی ہوتی جتنی ایک مچھر کے پر کی ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ کسی کافر کو اس دنیا سے ایک گھونٹ پانی بھی پینے کو نہ دیتا“۔ 2- جو شرک ومعاصی سے اجتناب اور اللہ کی اطاعت کرتے رہے، ان کے لیے آخرت اور جنت کی نعمتیں ہیں جن کو زوال وفنا نہیں۔