سورة الشورى - آیت 13

شَرَعَ لَكُم مِّنَ الدِّينِ مَا وَصَّىٰ بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَىٰ وَعِيسَىٰ ۖ أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ ۚ كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ ۚ اللَّهُ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَن يُنِيبُ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

تمہارے لیے دین کا وہی راستہ ٹھہرایا ہے جس کے لیے نوح کو وصیت کی گئی تھی اور اے پیغمبر اسلام جس کے لیے ہم نے تم پروحی کی ہے نیز یہ وہی راستہ ہے جس کے لیے ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو بھی وصیت کی تھی کہ دین الٰہی قام کرو اور اس میں تفرقہ نہ ڈالو۔ یہی بات مشرکوں پر شاق گزرتی ہے جس کیطرف تم ان کو دعت دے رہے ہو اللہ جسے چاہتا ہے اپنے لیے چن لیتا ہے اور جورجوع کرتا ہے اس کی اپنی طرف رہنمائی کرتا ہے (٧)۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- شَرَعَ کے معنی ہیں، بیان کیا، واضح کیا اور مقرر کیا، لَكُمْ (تمہارے لیے) یہ امت محمدیہ سے خطاب ہے۔ مطلب ہے کہ تمہارے لیے وہی دین مقرر یا بیان کیا ہے جس کی وصیت اس سے قبل تمام انبیا کو کی جاتی رہی ہے۔ اس ضمن میں چند جلیل القدر انبیا کے نام ذکر فرمائے۔ 2- الدِّينِ سے مراد، اللہ پر ایمان، توحید اطاعت رسول اور شریعت الٰہیہ کو ماننا ہے۔ تمام انبیا کا یہی دین تھا جس کی وہ دعوت اپنی اپنی قوم کو دیتے رہے۔ اگرچہ ہر نبی کی شریعت اور منہج میں بعض جزوی اختلافات ہوتے تھے جیسا کہ فرمایا: ﴿لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا﴾ (المائدة: 48) لیکن مذکورہ اصول سب کے درمیان مشترکہ تھے۔ اسی بات کو نبی (ﷺ) نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے : ہم انبیاء کی جماعت علاتی بھائی، ہیں، ہمارا دین ایک ہے۔ (صحیح بخاری وغیرہ) اور یہ ایک دین وہی توحید واطاعت رسول ہے، یعنی ان کا تعلق ان فروعی مسائل سے نہیں ہے جن میں دلائل باہم مختلف یا متعارض ہوتے ہیں یا جن میں کبھی فہم کا تباین اور تفاوت ہوتا ہے۔ کیونکہ ان میں اجتہاد یا اختلاف کی گنجائش ہوتی ہے اس لیے یہ مختلف ہوتے ہیں اور ہوسکتے ہیں، تاہم توحید واطاعت، فروعی نہیں، اصولی مسئلہ ہے جس پر کفر و ایمان کا دارومدار ہے۔ 3- صرف ایک اللہ کی عبادت اور اس کی اطاعت (یا اس کے رسول کی اطاعت جو دراصل اللہ ہی کی اطاعت ہے) وحدت وائتلاف کی بنیاد ہے اور اس کی عبادت واطاعت سے گریز یا ان میں دوسروں کو شریک کرنا، افتراق وانتشار انگیزی ہے، جس سے (پھوٹ نہ ڈالنا) کہہ کر منع کیا گیا ہے۔ 4- اور وہ وہی توحید اور اللہ ورسول کی اطاعت ہے۔ 5- یعنی جس کو ہدایت کا مستحق سمجھتا ہے، اسے ہدایت کے لیے چن لیتا ہے۔ 6- یعنی اپنا دین اپنانے کی اور عبادت کو اللہ کے لیے خالص کرنے کی توفیق اس شخص کو عطا کر دیتا ہے جو اس کی اطاعت و عبادت کی طرف رجوع کرتا ہے۔