سورة فصلت - آیت 50

وَلَئِنْ أَذَقْنَاهُ رَحْمَةً مِّنَّا مِن بَعْدِ ضَرَّاءَ مَسَّتْهُ لَيَقُولَنَّ هَٰذَا لِي وَمَا أَظُنُّ السَّاعَةَ قَائِمَةً وَلَئِن رُّجِعْتُ إِلَىٰ رَبِّي إِنَّ لِي عِندَهُ لَلْحُسْنَىٰ ۚ فَلَنُنَبِّئَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِمَا عَمِلُوا وَلَنُذِيقَنَّهُم مِّنْ عَذَابٍ غَلِيظٍ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

مگر جونہی ہم اس کو تکلیف کا وقت گزرجانے کے بعد اپنی رحمت کا مزہ چکھاتے ہیں تو کہنے لگتا ہے کہ میں اس کا مستحق ہوں اور میں نہیں خیال کرتا کہ قیامت کبھی قائم ہوگی لیکن اگر میں اپنے رب کی طرف لوٹایابھی گیا تومیرے لیے اس کے ہاں بہتری ہے سوہم کفر کرنے والوں کو ضرور بتادیں گے کہ وہ کیا عمل کرتے رہے ہیں اور ہم انہیں سخت ترین عذاب کا مزہ چکھائیں گے

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- یعنی اللہ کے ہاں میں محبوب ہوں، وہ مجھ سے خوش ہے، اسی لیے مجھے وہ اپنی نعمتوں سے نواز رہا ہے۔ حالانکہ دنیا کی کمی بیشی اس کی محبت یا ناراضی کی علامت نہیں ہے۔ بلکہ صرف آزمائش کے لیے اللہ ایسا کرتا ہے تاکہ وہ دیکھے کہ نعمتوں میں اس کا شکر کون کررہا ہے اور تکلیفوں میں صابر کون ہے؟ 2- یہ کہنے والا منافق یا کافر ہے، کوئی مومن ایسی بات نہیں کہہ سکتا۔ کافر ہی یہ سمجھتا ہے کہ میری دنیا خیر کے ساتھ گزر رہی ہے تو آخرت بھی میرے لیے ایسی ہی ہوگی۔