سورة فصلت - آیت 30

إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

جن لوگوں نے اقرار کیا کہ صرف اللہ ہی ہمارا پروردگار ہے پھر (اپنے کاموں کے اندر اس اعتقاد کا ثبوت دے کر) درجہ استقامت حاصل کرلیاماسوا کی طرف سے ان پر طمانیت وسکینت کے فرشتے نازل ہوں گے اور ان کو مطمئن کردیں گے کہ نہ تو کسی طرح کا خوف اپنے دلوں میں لاؤ اور نہ غمگین ہواورس جنت کی زندگی میں رہو، جس کا تم (ایسے استقامت والے مومنوں) سے وعدہ کیا گیا تھا

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- یعنی ایک اللہ وحدہ لاشریک . رب بھی وہی اور معبود بھی وہی . یہ نہیں کہ ربوبیت کا تو اقرار ، لیکن الوہیت میں دوسروں کو بھی شریک کیا جارہا ہے۔ 2- یعنی سخت سے سخت حالات میں بھی ایمان وتوحید پر قائم رہے، اس سے انحراف نہیں کیا بعض نےاستقامت کے معنی اخلاص کیے ہیں۔ یعنی صرف ایک اللہ ہی کی عبادت واطاعت کی۔ جس طرح حدیث میں بھی آتا ہے، ایک شخص نے رسول (ﷺ) سے کہا مجھےایسی بات بتلا دیں کہ آپ (ﷺ) کے بعد کسی سے مجھے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہ رہے۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا، [ قُلْ آمَنْتُ بِاللهِ ثُمَّ اسْتَقِمْ ] (صحيح مسلم- كتاب الإيمان، باب جامع أوصاف الإسلام) (کہہ، میں اللہ پر ایمان لایا، پھر اس پر استقامت اختیار کر)۔ 3- یعنی موت کے وقت، بعض کہتے ہیں، فرشتے یہ خوش خبری تین جگہوں پر دیتے ہیں، موت کے وقت، قبر میں اور قبر سے دوبارہ اٹھنے کے وقت۔ 4- یعنی آخرت میں پیش آنے والے حالات کا اندیشہ اور دنیا میں مال واولاد جو چھوڑ آئے ہو، ان کا غم نہ کرو۔ 5- یعنی دنیا میں جس کا وعدہ تمہیں دیا گیا تھا۔