سورة غافر - آیت 43

لَا جَرَمَ أَنَّمَا تَدْعُونَنِي إِلَيْهِ لَيْسَ لَهُ دَعْوَةٌ فِي الدُّنْيَا وَلَا فِي الْآخِرَةِ وَأَنَّ مَرَدَّنَا إِلَى اللَّهِ وَأَنَّ الْمُسْرِفِينَ هُمْ أَصْحَابُ النَّارِ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

یہ بات یقینی ہے کہ جس کی طرف تم مجھے دعوت دے رہو ہو وہ نہ دنیا میں دعوت دینے کی صلاحیت رکھتا ہے اور نہ آخرت میں اور ہم سب کی بازگشت اللہ ہی کی طرف ہے اور جو لوگ حد سے تجاوز کرنے والے ہیں وہی اہل جہنم ہیں

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- لا جَرَمَ یہ بات یقینی ہے، یا اس میں جھوٹ نہیں ہے۔ 2- یعنی وہ کسی کی پکار سننے کی استعداد ہی نہیں رکھتے کہ کسی کونفع پہنچا سکیں یا الوہیت کا استحقاق انہیں حاصل ہو۔ اس کا تقریباً وہی مفہوم ہے جو اس آیت اور اس جیسی دیگر متعدد آیات میں بیان کیا گیا ہے، ﴿وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنْ يَدْعُو مِنْ دُونِ اللَّهِ مَنْ لا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَهُمْ عَنْ دُعَائِهِمْ غَافِلُونَ﴾ (الأحقاف: 5) ﴿إِنْ تَدْعُوهُمْ لا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ﴾ (فاطر: 14) اگر تم انہیں پکارو تو وہ تمہاری پکار سنتے ہی نہیں اور اگر بالفرض سن بھی لیں تو قبول نہیں کر سکتے۔ 3- یعنی آخرت میں ہی وہ پکار سن کر کسی کو عذاب سے چھڑانے پر یا شفاعت ہی کرنے پر قادر ہوں؟ یہ بھی ممکن نہیں ہے۔ ایسی چیزیں بھلا اس لائق ہو سکتی ہیں کہ وہ معبود بنیں اور ان کی عبادت کی جائے؟ 4- جہاں ہر ایک کا حساب ہوگا اور عمل کے مطابق اچھی یا بری جزا دی جائےگی۔ 5- یعنی کافر ومشرک، جو اللہ کی نافرمانی میں ہرحد سے تجاوز کر جاتے ہیں، اس طرح جو بہت زیادہ گناہ گار مسلمان ہوں گے، جن کی نافرمانیاں اسراف کی حد تک پہنچی ہوئی ہوں گی، انہیں بھی کچھ عرصہ جہنم کی سزا بھگتنی ہوگی۔ تاہم بعد میں شفاعت رسول (ﷺ) یا اللہ کی مشیت سے ان کو جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کر دیا جائے گا۔