سورة الزمر - آیت 9

أَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ آنَاءَ اللَّيْلِ سَاجِدًا وَقَائِمًا يَحْذَرُ الْآخِرَةَ وَيَرْجُو رَحْمَةَ رَبِّهِ ۗ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ ۗ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

بھلاوہ شخص جو رات کے اوقات تنہائی وخلوت میں ہر طرف سے کٹ کر خدا کے سامنے جھک گیا کبھی جوش اضطراب کی منزلوں کے تصور سے ڈرنے لگتا ہے اور کبھی اس کی شان کریمی و رحمت کی یاد کرکے امیدو اور بخشش ہوجاتا ہے توبتلاؤ کہ ایسا شخص اور سرشار ان غفلت وحجاب برابر ہیں؟ پھر کیا صاحبان علم اور گم گشتگان جہل، دونوں کا ایک درجہ ہے اور نصیحت وہی مانتے ہیں جودانشمند ہیں (٨)۔

تفسیر مکہ - حافظ صلاح الدین یوسف حافظ

* مطلب یہ ہے کہ ایک یہ کافر ومشرک ہے جس کا یہ حال ہے جو ابھی مذکور ہوا اور دوسرا وہ شخص ہے جو تنگی اور خوشی میں، رات کی گھڑیاں اللہ کے سامنے عاجزی اور فرماں برداری کا اظہار کرتے ہوئے، سجود وقیام میں گزارتا ہے۔ آخرت کا خوف بھی اس کے دل میں ہے اور رب کی رحمت کا امیدوار بھی ہے۔ یعنی خوف ورجا دونوں کیفیتوں سے وہ سرشار ہے، جو اصل ایمان ہے۔ کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟ نہیں، یقیناً نہیں۔ خوف ورجا کے بارے میں حدیث ہے، حضرت انس (رضی الله عنہ) بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) ایک شخص کے پاس گئے جب کہ اس پر سکرات الموت کی کیفیت طاری تھی، آپ (ﷺ) نے اس سے پوچھا تو اپنے آپ کو کیسے پاتا ہے؟ اس نے کہا میں اللہ سے امید رکھتا ہوں اور اپنے گناہوں کی وجہ سے ڈرتا بھی ہوں۔ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا ”اس موقعے پر جس بندے کے دل میں یہ دونوں باتیں جمع ہو جائیں تواللہ تعالیٰ اسے وہ چیز عطا فرما دیتا ہے جس کی وہ امید رکھتا ہے اور اس سے اسے بچا لیتا ہے جس سے وہ ڈرتا ہے“۔ (ترمذی ، ابن ماجہ، كتاب الزهد، باب ذكر الموت والاستعداد له ** یعنی وہ جو جانتے ہیں کہ اللہ نے ثواب وعقاب کا جو وعدہ کیا ہے، وہ حق ہے اور وہ جو اس بات کو نہیں جانتے۔ یہ دونوں برابر نہیں۔ ایک عالم ہے اور ایک جاہل۔ جس طرح علم وجہل میں فرق ہے، اسی طرح عالم وجاہل برابر نہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ عالم وغیر عالم کی مثال سے یہ سمجھانا مقصود ہو کہ جس طرح یہ دونوں برابر نہیں، اللہ کا فرماں بردار اور اس کا نافرمان، دونوں برابر نہیں۔ بعض نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ عالم سے مراد وہ شخص ہےجو علم کے مطابق عمل بھی کرتا ہے۔ کیوں کہ وہی علم سے فائدہ حاصل کرنے والا ہے اور جو عمل نہیں کرتا وہ گویا ایسے ہی ہے کہ اسے علم ہی نہیں ہے۔ اس اعتبار سے یہ عامل اور غیر عامل کی مثال ہے کہ یہ دونوں برابر نہیں۔ *** اور یہ اہل ایمان ہی ہیں، نہ کہ کفار۔ گو وہ اپنے آپ کو صاحب دانش وبصیرت ہی سمجھتے ہوں۔ لیکن جب وہ اپنی عقل ودانش کو استعمال کرکے غور وتدبر ہی نہیں کرتے اور عبرت ونصیحت ہی حاصل نہیں کرتے تو ایسے ہی ہے گویا وہ چوپایوں کی طرح عقل ودانش سےمحروم ہیں۔