يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تُطِيعُوا فَرِيقًا مِّنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ يَرُدُّوكُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ كَافِرِينَ
اے ایمان والو ! اگر تم اہل کتاب کے ایک گروہ کی بات مان لو گے تو وہ تمہارے ایمان لانے کے بعد تم کو دوبارہ کافر بان کر چھوڑیں گے۔
1- یہودیوں کے مکر وفریب اور ان کی طرف سے مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی مذموم کوششوں کا ذکر کرنے کے بعد مسلمانوں کو تنبیہ کی جا رہی ہے کہ تم بھی ان کی سازشوں سے ہوشیار رہو اور قرآن کی تلاوت کرنے اور رسول اللہ (ﷺ) کے موجود ہونے کے باوجود کہیں یہود کے جال میں نہ پھنس جاؤ۔ اس کا پس منظر تفسیری روایات میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ انصار کے دونوں قبیلے اوس اور خزرج ایک مجلس میں اکھٹے بیٹھے باہم گفتگو کر رہے تھے کہ شاس بن قیس یہودی ان کے پاس سے گزرا اور ان کا باہمی پیار دیکھ کر جل بھن گیا کہ پہلے ایک دوسرے کے سخت دشمن تھےاور اب اسلام کی برکت سے باہم شیروشکر ہوگئے ہیں۔ اس نے ایک نوجوان کے ذمے یہ کام لگایا کہ وہ ان کے درمیان جاکر جنگ بعاث کا تذکرہ کرے جو ہجرت سے ذرا پہلے ان کے درمیان برپا ہوئی تھی اور انہوں نے ایک دوسرے کے خلاف جو رزمیہ اشعار کہے تھے وہ ان کو سنائے۔ چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا، جس پر ان دونوں قبیلوں کے پرانے جذبات پھربھڑک اٹھے اور ایک دوسرے کو گالی گلوچ دینے لگے یہاں تک کہ ہتھیار اٹھانے کے لئے للکار اور پکار شروع ہوگئی۔ اور قریب تھا کہ ان میں باہم قتال بھی شروع ہو جائے کہ اتنے میں نبی (ﷺ) تشریف لے آئے اور انہیں سمجھایا اور وہ باز آگئے اس پر یہ آیت بھی اور جو آگے آرہی ہے وہ بھی نازل ہوئیں۔ (تفسير ابن كثير، فتح القدير وغيره)