سورة فاطر - آیت 28

وَمِنَ النَّاسِ وَالدَّوَابِّ وَالْأَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ أَلْوَانُهُ كَذَٰلِكَ ۗ إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ غَفُورٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور اسی طرح آدمیوں، جانوروں اور چارپایوں کی رنگتیں بھی کئی طرح کی ہیں جن میں اللہ نے بڑی حکمتیں رکھی ہیں اللہ کا خوف اس کے بندوں میں سے علماء ہی کو ہوسکتا ہے (یعنی انہی دلوں میں پیدا ہوسکتا ہے جنہوں نے کائنات کے ان حقائق واسرار کا مطالعہ کیا ہے اور اس کے علم وحکمت سے بہرہ اندوز ہیں) یقینا اللہ عزیز وغفور ہے (٨)۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- یعنی انسان اور جانور بھی سفید، سرخ، سیاہ اور زرد رنگ کے ہوتے ہیں۔ 2- یعنی اللہ کی ان قدرتوں اور اس کے کمال صناعی کو وہی جان اور سمجھ سکتے ہیں جو علم رکھنے والے ہیں، اس علم سے مراد کتاب وسنت اور اسرار الہیٰہ کا علم ہے اور جتنی انہیں رب کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔ اتنا ہی وہ رب سے ڈرتے ہیں، گویا جن کےاندر خشیت الٰہی نہیں ہے، سمجھ لو کہ علم صحیح سے بھی محروم ہیں۔ سفیان ثوری فرماتے ہیں کہ علما کی تین قسمیں ہیں۔ عالم باللہ اور عالم بامراللہ، یہ وہ ہے جو اللہ سے ڈرتا اور اس کے حدود وفرائض کو جانتا ہے۔ دوسرا صرف عالم باللہ، جو اللہ سےتو ڈرتا ہے لیکن اس کے حدود وفرائض سے بےعلم ہے۔ تیسرا، صرف عالم بامراللہ، جو حدودوفرائض سے باخبر ہے لیکن خشیت الٰہی سے عاری ہے (ابن کثیر)۔ 3- یہ رب سے ڈرنے کی علت ہے کہ وہ اس بات پر قادر ہے کہ نافرمان کو سزا دے اور توبہ کرنے والے کے گناہ معاف فرما دے۔