سورة سبأ - آیت 19

فَقَالُوا رَبَّنَا بَاعِدْ بَيْنَ أَسْفَارِنَا وَظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ فَجَعَلْنَاهُمْ أَحَادِيثَ وَمَزَّقْنَاهُمْ كُلَّ مُمَزَّقٍ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

مگر انہوں نے (زبان حال سے) کہا اے ہمارے رب ہمارے سفروں کی مسافتیں لمبی کردے اور انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا آخرکار ہم نے ان کو قصہ پارینہ بناکررکھ دیا اور ان کو بالکل تتربتر کردیا، بے شک اس واقعہ میں ہر صبور وشکور شخص کے لیے (بڑی عبرت آموز) نشانیاں ہیں (٧)۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- یعنی جس طرح لوگ سفر کی صعوبتوں، خطرات اور موسم کی شدتوں کا تذکرہ کرتے ہیں، ہمارے سفر بھی اسی طرح دور دور کردے، مسلسل آبادیوں کے بجائے درمیان میں سنسان وویران جنگلات اور صحراوں سے ہمیں گزرنا پڑے، گرمیوں میں دھوپ کی شدت اور سردیوں میں یخ بستہ ہوائیں ہمیں پریشان کریں اور راستے میں بھوک اور پیاس کی سختیوں سے بچنے کے لئے ہمیں زاد راہ کا بھی انتظام کرنا پڑے۔ ان کی یہ دعا اسی طرح کی ہے، جیسے بنی اسرائیل نے من وسلویٰ اور دیگر سہولتوں کے مقابلے میں دالوں اور سبزیوں وغیرہ کا مطالبہ کیا تھا۔ یا پھر زبان حال سے ان کی یہ دعا تھی۔ 2- یعنی انہیں اس طرح ناپید کیا کہ ان کی ہلاکت کا قصہ زبان زد خلائق ہوگیا۔ اور مجلسوں اور محفلوں کا موضوع گفتگو بن گیا۔ 3- یعنی انہیں متفرق اور منتشر کردیا، چنانچہ سبا میں آباد مشہور قبیلے مختلف جگہوں پر جاآباد ہوئے، کوئی یثرب ومکہ آیا، کوئی شام کے علاقے میں چلا گیا کوئی کہیں اور کوئی کہیں۔