سورة البقرة - آیت 28

كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَكُنتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْيَاكُمْ ۖ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(اے افراد نسل انسای !) تم کس طرح اللہ سے (اور اس کی عبادت سے) انکار کرسکتے ہو جبکہ حالت یہ ہے کہ تمہار اوجود نہ تھا، اس نے زندی بخشی پھر وہی ہے جو زندگی کے بعد موت طاری کرتا ہے اور موت کے بعد دوبارہ زندگی بخشے گا، اور بالآخر تم سب کو اسی کے حضور لوٹنا ہے

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1-آیت میں دو موتوں اور دو زندگیوں کا تذکرہ ہے۔ پہلی موت سے مراد عدم (نیست یعنی نہ ہونا) ہے اور پہلی زندگی ماں کے پیٹ سے نکل کر موت سے ہمکنار ہونے تک ہے۔ پھر موت آجائے گی اور پھر آخرت کی زندگی دوسری زندگی ہوگی، جس کا انکار کفار اور منکرین قیامت کرتے ہیں۔ شوکانی نے بعض علماء کی رائے ذکر کی ہے کہ قبر کی زندگی (كَمَا هِيَ) دنیوی زندگی میں ہی شامل ہوگی (فتح القدیر) صحیح یہ ہے کہ برزخ کی زندگی، حیات آخرت کا پیش خیمہ اور اس کا سرنامہ ہے، اس لئے اس کا تعلق آخرت کی زندگی سے ہے۔