ثُمَّ سَوَّاهُ وَنَفَخَ فِيهِ مِن رُّوحِهِ ۖ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ ۚ قَلِيلًا مَّا تَشْكُرُونَ
پھر اس کی تمام قوتوں کی درستی کی اور اپنی روح (میں سے ایک قوت) پھونک دی اور اس طرح اس کے لیے سننے، دیکھنے اور فکر کرنے کی قوتیں پیدا کردیں (لیکن افسوس انسان کی غفلت پر) بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ وہ اللہ کی رحمت کاشکرگزار ہو
1- یعنی اس بچے کی، ماں کے پیٹ میں نشوونما کرتے، اس کے اعضا بناتے، سنوارتے ہیں اور پھر اس میں روح پھونکتے ہیں۔ 2- یعنی یہ ساری چیزیں پیدا کیں تاکہ وہ اپنی تخلیق کی تکمیل کر دے، پس تم ہر سننے والی بات کو سن سکو، دیکھنے والی چیز کو دیکھ سکو اور ہر عقل وفہم میں آنے والی بات کو سمجھ سکو۔ 3- یعنی اتنے احسانات کے باوجود انسان اتنا ناشکرا ہے کہ وہ اللہ کا شکر بہت ہی کم ادا کرتا ہے یا شکر کرنے والے آدمی بہت تھوڑے ہیں۔