سورة لقمان - آیت 15

وَإِن جَاهَدَاكَ عَلَىٰ أَن تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۖ وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا ۖ وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ ۚ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور اگر وہ دونوں تجھ پر زور ڈالیں کہ توایسی چیز کو میرے ساتھ شریک ٹھہرا جس کے معبود ہونے کا تجھ کو علم نہیں ہے تو ان کی بات نہ مان ہاں دنیا میں ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتا رہ، اور اس شخص کے راستہ کی پیروی کر جو میری طرف رجوع ہو، پھر تم سب کو لوٹ کر میری طرف آنا ہے اس وقت میں تمہی آگاہ کردوں گا کہ تم کیا عمل کرتے رہے تھے

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- یعنی مومنین کی راہ۔ 2- یعنی میری طرف رجوع کرنے والوں (اہل ایمان) کی پیروی اس لئے کرو کہ بالآخر تم سب کو میری ہی بارگاہ میں آنا ہے، اور میری ہی طرف سے ہر ایک کو اس کے (اچھے یا برے) عمل کی جزا ملنی ہے۔ اگر تم میرے راستے کی پیروی کرو گے اور مجھے یاد رکھتے ہوئے زندگی گزارو گے تو امید ہے کہ قیامت والے روز میری عدالت میں سرخ رو ہو گے بصورت دیگر میرے عذاب میں گرفتار ہو گے۔ سلسلۂ کلام حضرت لقمان کی وصیتوں سے متعلق تھا۔ اب آگے پھر وہی وصیتیں بیان کی جا رہی ہیں جو لقمان نے اپنے بیٹے کو کی تھیں۔ درمیان کی دو آیتوں میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے جملہ معترضہ کے طور پر ماں باپ کے ساتھ احسان کی تاکید فرمائی، جس کی ایک وجہ تو یہ بیان کی گئی ہے۔ کہ لقمان نے وصیت اپنے بیٹے کو نہیں کی تھی کیونکہ اس میں ان کا اپنا ذاتی مفاد بھی تھا۔ دوسرا یہ واضح ہو جائے کہ اللہ کی توحید وعبادت کے بعد والدین کی خدمت واطاعت ضروری ہے۔ تیسرا یہ کہ شرک اتنا بڑا گناہ ہے کہ اگر اس کا حکم والدین بھی دیں، تو ان کی بات نہیں ماننی چاہئے۔