أَوَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۚ كَانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً وَأَثَارُوا الْأَرْضَ وَعَمَرُوهَا أَكْثَرَ مِمَّا عَمَرُوهَا وَجَاءَتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ ۖ فَمَا كَانَ اللَّهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلَٰكِن كَانُوا أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ
کیا یہ لوگ زمین میں چلتے پھرتے نہیں ؟ (یعنی اگر پھرتے) تو دیکھتے کہ وہ قومین جو ان سے پہلے گزری ہیں ان کا انجام کیا ہوا وہ قومیں تھیں جو ان سے تمدن وترقیات اور قوائے جسمانی سے بڑھ کر قوی تھیں انہوں نے زمین پر اپنے کاموں کے آثار چھوڑے اور جس قدر تم نے اسے متمدن بنایا ہے اس سے کہیں زیادہ انہوں نے تمدن پھیلایا ہے لیکن جب ہمارے رسول ان میں بھیجے گئے اور ہماری نشانیاں انہیں دکھائی گئیں تو انہوں نے سرکشی اور بغاوت سے انہیں جھٹلادیا اور برباد فنا ہوگئے خدا ظلم کرنے والا نہیں تھا لیکن انہوں نے خود اپنے اوپر ظلم کیا (٢)
1- یہ آثار وکھنڈرات اور نشانات عبرت پر غور وفکر نہ کرنے پر توبیخ کی جا رہی ہے۔ مطلب ہے کہ چل پھر کر وہ مشاہدہ کر چکے ہیں۔ 2- یعنی ان کافروں کا، جن کو اللہ نے ان کے کفر باللہ، حق کے انکار اور رسولوں کی تکذیب کی وجہ سے ہلاک کیا۔ 3- یعنی قریش اور اہل مکہ سے زیادہ۔ 4- یعنی اہل مکہ تو کھیتی باڑی سے ناآشنا ہیں لیکن پچھلی قومیں اس وصف میں بھی ان سے بڑھ کر تھیں۔ 5- اس لئے کہ ان کی عمریں بھی زیادہ تھیں، جسمانی قوت میں بھی زیادہ تھے اسباب معاش بھی ان کو زیادہ حاصل تھے، پس انہوں نے عمارتیں بھی زیادہ بنائیں، زراعت وکاشتکاری بھی کی اور وسائل رزق بھی زیادہ مہیا کئے۔ 6- لیکن وہ ان پر ایمان نہیں لائے۔ نتیجتاً تمام تر قوتوں، ترقیوں اور فراغت وخوش حالی کے باوجود ہلاکت ان کا مقدر بن کر رہی۔ 7- کہ انہیں بغیر گناہ کے عذاب میں مبتلا کر دیتا۔ 8- یعنی اللہ کا انکار اور رسولوں کی تکذیب کرکے۔